🐥سوشل میڈیا میں عربوں پر ترکوں کے ظلم کی گونج
🚀اردگان اور تحریکیوں کا دفاع
💥سچائی کیا ہے؟
✍بقلم : ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
ابھی حال میں 20/دسمبر2017 کو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زائد آل نہیان نے د/علی العراقی کے ٹیوٹر پیج پر موجود اس عبارت پر ری ٹیوٹ کردیا جس پر ترکی کے صدر اردگان اور ترکی نواز تحریکیوں نے ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے ۔ عبارت کچھ یوں ہے: (هل تعلمون فی عام 1916 قام الترکی فخری باشا بجریمة بحق أهل المدینة النبویة فسرق أموالهم وقام بخطفہم وأرکبهم فی قطارات إلي الشام وأسطنبول برحلة سمیت (سفر برلك)۔ کما سرق الأتراک أغلب مخطوطات المکتبة المحمودیة بالمدینة وأرسلوها إلى ترکیا۔ هولاء أجداد أردوغان وتاریخهم مع المسلمین العرب) ترجمہ: کیا آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ 1916 میں ترکی حاکم فخری پاشا نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا جرم کیا تھا تو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس نے اہل مدینہ کے مال ودولت کو لوٹا ، انہیں اغوا کیا اور زبردستی ریل گاڑیوں میں بٹھا کر شام اور پھر استنبول تک ایک ایسے برے سفر کے ساتھ پہونچایا گیا جسے تاریخ میں( سفر برلک) سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ترکوں نے مدینہ منورہ کی محمودیہ لائبریری کے تمام مخطوطات کو چوری کرکے ترکی بھیج دیا۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کے یہی آباءواجداد ہیں اور عرب مسلمانوں کے ساتھ یہی ان کی تاریخ ہے۔
بیت المقدس کے جھوٹے دفاع میں جب اردگان فیل ہوگئے اور انہیں عالمی پیمانے پر سبکی محسوس ہونے لگی تو سوشل میڈیا کے اندر اپنی بہادری کا جلوہ دکھانے آگئے چنانچہ اپنے ان ترک آباء واجداد پر فخر کرنا شروع کردیا جنہوں نے ماضی میں اپنے مقبوضہ علاقوں میں ظلم وستم کی بھیانک داستان رقم کر رکھی ہے۔ انہیں میں سے فخر الدین پاشا کا نام آتا ہے جو آخری دور میں مدینہ کا والی تھا اور جس نے اہل مدینہ پر بے رحمی سے ظلم وستم ڈھایا تھا۔ اس ظالم نے اہل مدینہ کو جبرا استنبول ٹرین میں بھر کر لے گیا تھاجسے ترکی میں (سفر برلک) سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب اجتماعی سفر کے ہوتے ہیں۔ ایک عظیم اسکالر اور باحث احمد امین مرشد کے ریسرچ کے مطابق جنہوں نے ہزاروں دستاویز کو جمع کر کے انکا مطالعہ کیا ہے ، یہ سفر برلک حجاز ٹرین کے ذریعے انجام پایا تھا جس میں اہل مدینہ کو مجبور بناکر بھوکا پیاسا رکھ کر ترکی لے جایا گیا تھا۔ جس نے مدینہ والوں کے خاندان کے ہر شخص کو بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ اہل مدینہ کو اس کی کڑواہٹ کا آج تک احساس ہے۔ اس ظلم سے جہاں ایک طرف انسانیت شرمسار ہوئی وہیں دوسری طرف تہذیب وثقافت اور اقتصاد کا زبر دست نقصان ہوا ؛ کیونکہ اس ظالم نے تمام آثار اسلامیہ ، تہذیبی ورثہ، مخطوط کتابیں اور تمام سونے چاندی کے سکے چوری کرکے ترکی پہونچا دیا۔ لیکن آخر میں عربوں نے شریف فیصل کی قیادت میں فخری پاشا کو قید کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور پھر کچھ شرائط کے ساتھ اسے ترکی جانے کی اجازت دیدی۔ اس طرح یہ ظالم شخص 9/جنوری 1919کو مدینہ سے ذلیل کرکے نکال دیا گیا جو ینبع، جدہ، مصر ہوتے ہوئے استنبول چلا گیا۔ (http://www.ajel.sa/local/2020611)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ فی الواقع ایسا پیش آیا ہے اسی لئے بہت سارے حقیقت پسندوں اور عرب اخبار نویسوں نے اسکی تائید کی ہے۔ لیکن ترکی کے صدر اور ترکی نواز تحریکیوں کو تو اس پر کب برداشت ہوسکتا ہے انہیں تو مسلمانوں اور خصوصا عربوں کو دھوکے میں رکھ کر موجودہ عالمی سیاست میں مسلمانوں کی قیادت سنبھالنی ہے اور اردگان کے ہاتھ پر بیعت کرکے مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا خواب ہے۔ اسی لئے بڑے پیمانے پر انہوں نے اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی چنانچہ سب سے پہلے اردگان ہی کا ڈھکوسلہ دیکھئے کہ کیسے اس پر اماراتی وزیر کو جواب دیتے ہیں:( تمہیں اپنی اوقات معلوم ہونی چاہئے ، تم اپنے حدود میں رہو، تمہیں ترکی قوم کے بارے میں اب تک کچھ نہیں پتہ ہے، تم اردگان کو بھی نہیں جانتے تو اردگان کے آباءواجداد کو کیا جانو گے۔ میرے دادا فخر الدین پاشا جس وقت مدینہ منورہ کا دفاع کر رہے تھے اس وقت اے مسکین تمہارے دادا کہاں تھے جو مجھ پر ایسی گھٹیا تہمت لگانے آئے ہو)۔
24/ دسمبر کو ترکی صدر اردگان کچھ زیادہ ہی پریشان ہوگئے اور تلملا کر اپنے حقیقی فکر کی ترجمانی کر بیٹھے ۔ چنانچہ سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کلپ چل رہی ہے جس میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور آپکی دعوت پر الزام لگاتے ہوئے اردگان کہہ رہے ہیں کہ وہابیت تشدد پسند گروہ ہے اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسلمان تو ہم لوگ ہیں۔ڈاکٹر ریاض بن سعید نے اس کی تردید میں کہا کہ اردگان نے وہابیت کا نام لیکر اہل توحید کو اسلام سے خارج کرکے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ وہ اہل توحید جس نے اہل شرک وبدعت اور تصوف وتقلید کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا ۔ ظاہر ہے اردگان کا تعلق انہیں لوگوں سے ہے جنہوں نے شرک وبدعت اور تصوف کو اسلام سمجھ رکھا ہے تو آخر اہل توحید اور اہل سنت کو اس طرح کے خرافاتی اور بدعتی اسلام سے خارج نہیں کریں گے تو کس کو کریں گے؟ احمد الفوزان نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہی تحریکی فکر ہے جسکا اظہار اردگان کر رہے ہیں ؟ آل سعود اور آل شیخ یعنی اہل توحید کے تعلق سے کیا یہی فکر اہل یورپ اور اہل رفض وتشیع ایرانی نہیں رکھتے ہیں ؟ کس قدر مغربی ، رافضی اور تحریکی فکر میں یکسانیت ہے؟ !! اس خبر اور ویڈیو کو تفصیل سے اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں: (nabdapp.com/jump_android.php?id=47997311&f=0)
بی بی سی عربک کے مطابق اسی مذکورہ ٹیوٹ اور ری ٹیوٹ کے رد عمل میں ترکی نے اپنے سفیر کے ذریعے امارات میں احتجاج درج کروایا اورعربوں کو اشتعال دلانے اور انہیں رسوا کرنے کیلئے ترکی کی راجدھانی انقرہ میں اماراتی سفارت خانہ کے سامنے والی سڑک کا نام بدل کر اسی ترکی حاکم فخرالدین پاشا کے نام پر رکھ دیا۔ (22/دسمبر: www.bbc.com/arabic/amp/middleeast-42458547)
اردگان اور ترکی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام تحریکی بھی اردگان کے دفاع میں فوراً کھڑے ہوگئے اور اپنے نمک حلالی کا ثبوت دینے لگے چنانچہ اخوانی عالمی تنظیم (عالمی اتحاد برائے علماءمسلمین) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی قرہ داغی نے بیان دیکر اس ٹیوٹ کی مذمت کی اور عثمانی سلطنت کی تعریف کے پل باندھ دیئے۔ (21/دسمبر: www.bbc.com/arabic/amp/middleeast-42444435)، ایک تحریکی (سامی کمال الدین ) نے اپنے ٹیوٹر پر لکھا : (تم تاریخ پر باتیں کرنے آئے ہو جب کہ تمہاری کوئی تاریخ ہی نہیں ہے)۔ ایک دوسرے تحریکی نے کہا:( ترکوں اور عثمانی سلطنت کی تاریخ جسے نہیں پتہ ہوگا اس کے لئے اللہ تعالی اردگان جیسے لوگوں کو بھیج کر انہیں اور ان کی اصل یاد دلا دے گا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں)۔
اس کے رد عمل میں اماراتی وزیر خارجہ کا ساتھ دیتے ہوئے بہت سارے سعودی اور مصری اور دیگر عرب نوجوانون نے اردگان اور دیگر تحریکیوں کا جواب دیا ہے بلکہ ہزاروں عرب نوجوانوں نے اماراتی وزیر خارجہ کے حق میں (کلنا عبد اللہ بن زاید- ہم سب عبد اللہ بن زاید ہیں) کے نام سے ہاش ٹیگ (HASHTAG#) جاری کیا ہے جس پر اردگان کے خلاف سب نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے ۔ کسی نے خائن کہا تو کسی نے منافق، کسی نے بدبخت کہا تو کسی نے اسرائیل کا پٹھو۔ معروف قلمکار عبد اللہ طویلعی نے کہا: خونخوار مجرم فخری پاشا کا دفاع ایک مجرم ہی کرسکتاہے، یہ وہی شخص تھا جس نے اہل مدینہ کا ناحق خون بہایا، انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا، جس نے مسجد نبوی کو حلال کرکے اسے اسلحوں کا گودام بنایا، حجرہ نبویہ کے قیمتی آثار کو چرالیا پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ مجرم تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہوگیا ، اور ہر مجرم کا یہی انجام ہوتا ہے۔
شعبہ دعوت وتبلیغ سے منسلک شیخ نایف العساکر نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر اردگان کی تردید میں مدینہ منورہ کے اندر فخر الدین پاشا کے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: (أي هراء یدعيه أوردغان وہو یتفاخر بتاریخهم الأسود، هل نسي ماذا فعل أسلافه وأجدادہ بأجدادنا؟؟!! لقد قتّلوا وهجرّوا الأمراء والعلماء)ترجمہ: اردگان اپنے آباء واجداد کی سیاہ تاریخ پر فخر کرکے کس حماقت کا دعوی کر رہا ہے ، کیا اسے نہیں یاد کہ اسکے آباء واجداد نے ہمارے آباء واجداد کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا؟؟!! ہمارے علماء اور امراءکو شہر بدر اور بری طرح قتل کیا تھا۔ آگے مزید لکھتے ہیں: (فی شتاء عام 1915 دخل عدد کبیر من الجنود الأتراک إلى المدینة المنورة، وکانت الأوامر الصادرة لهم من المجرم فخر الدین باشا (جد أردوغان) تهجیر أهل المدینة رجالا ونساء وأطفالا ۔۔۔۔ فأي غیرة نرجوه من الأتراک علی الدین ؟؟!!)ترجمہ: 1915 کے موسم سرما میں مدینہ منورہ کے اندر بہت سارے ترک فوجی داخل ہوئے، ان فوجیوں کو مجرم فخر الدین پاشا(اردگان کا دادا)کی طرف سے یہ حکم ملا تھا کہ مرد ، عورتوں اور بچوں سمیت سارے اہل مدینہ کو شہر بدر (ہجرت پر مجبور) کرنا ہے۔۔۔۔۔ اب اس کے بعد ترکوں پر کس طرح کی غیرت دین کی توقع کی جاسکتی ہے؟؟!!
عبد اللہ الروقی نے لکھا: (عام 1916 قام الترکی فخر الدین باشا بجریمة فی حق أهل المدینة المنورة ، فقد صادر طعامهم وأجبر النساء والأطفال علی بناء الحصون مقابل الحصول علی نصف رغیف) ترجمہ: 1916میں ترکی حاکم فخر الدین پاشا نے اس جرم کا ارتکاب کیا کہ اہل مدینہ کے غلے کو ضبط کر لیا اور عورتوں بچوں کو آدھی روٹی پر قلعہ بنانے میں لگا دیا۔ (http://www.ajel.sa/local/2020541)
بروز جمعہ 22/دسمبر کو سوشل میڈیا پر اماراتی وزیر خارجہ کے حق میں سعودی نوجوانوں کے ساتھ مصری نوجوانوں نے بھی اردگان کے نفاق ، دھوکہ، جھوٹ اور ظالم حاکموں پر فخر کو بے نقاب کرتے ہوئے ترکوں کے مزید ظلم کی داستان چھیڑ دی ۔ چنانچہ مصر کے اندر 1517 سے لیکر1914تک ترکوں نے اپنے قبضے کے دوران جو ظلم وستم مصریوں پر ڈھایا ان کی بھی تفصیل شوشل میڈیا پر بیان کردی۔ چنانچہ سلطان سلیم اول سے لیکر محمد علی پاشا تک قاہرہ ، اسکندریہ، طنطا، صعید اور دیگر مصری علاقوں میں جہاں جہاں بھی ترکوں نے مصریوں پر وحشیانہ ظلم کی ہے سب کو حوالوں اور تاریخی شواہد کی روشنی میں مصری نوجوانوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے جسے پڑھ کر دنیا شرمسار ہو رہی ہے۔ تاریخ ابن ایاس کے حوالے سے ایک مصری نوجوان نے لکھا کہ جس وقت سلطان سلیم مصر میں داخل ہوا اس دن قاہرہ میں ایک طرف امن وامان کا اعلان کرتا تھا اور اسکے کارندے اور فوجی دوسری طرف لوٹ مار کر رہے تھے۔
چنانچہ ایک طرف سلطان سلیم نے مصر سے زیورات، سونے اور چاندی کے سکے، ہر طرح کے ریشمی کپڑے، اسلحہ ، عمدہ گھوڑے اور خچر، غلام اور لونڈیاں ، ہر طرح کی بیش بہا چیزیں اور ایسی ایسی عمدہ اشیار کے انبار لوٹ کر ترکی پہونچا دیا جن کو ترکوں نے کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔ دوسری طرف ترکی فوج کے لوگ مصری گھروں کو جلا رہے تھے، لوگوں کو قتل کر رہے تھے اور باقی کو قید کر رہے تھے۔ معصوموں کو طرح طرح کی سزائیں دے رہے تھے۔ مصر میں جگہ جگہ انسانی لاشوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ صرف چار دنوں کے اندر دسیوں ہزار سے زیادہ مصریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ (http://www.ajel.sa/local/2022046)
ترکوں کے آخری دور میں محمد علی پاشا اور اس کی اولاد نے مصر کا جس طرح تیا پانچا کرکے رکھ دیا اس کی مثال مصری تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ اہل مصر پر جسمانی تشدد اور خوف ورعب میں مبتلا کر نے کے ساتھ ساتھ انہیں سرکاری محکموں سے دور ہی نہیں رکھا بلکہ یہود ونصاری اور ملحدین وکفار کو دفاع، مالیات اور پولیس محکمہ ہر جگہ بٹھا دیا جو بلا واسطہ مسلمانوں پر حکومت کرتے تھے۔ اور یورپ کی تہذیب وثقافت کو اسلامی تعلیم میں اس طرح ملا کر گڈ مڈ کر دیا جسے نجیب محفوظ اور طہ حسین بھی نہیں سوچ سکے۔ اس ظالم اور ملحد حاکم کے ظلم کی داستان عبد الرحمن جبرتی مصری نے بلا خوف ملامت اچھی طرح بیان کی ہے۔ اختصار کے ساتھ دکتور سید بن حسین عفانی کے کتاب(أعلام وأقزام في ميزان الإسلام) جلد نمبر ۱ صفحہ ۸ اور اس سے آگے کا مطالعہ کافی ہوگا۔
سلطان سلیم نے 1517میں جب مملوکوں کی حکومت کا خاتمہ کردیا تو مصر کے ساتھ ملک شام میں بھی بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری مچائی چنانچہ ایک اندازے کے مطابق حلب ، معرہ اور شام کے دیگر شہروں میں چالیس ہزار سے زائد عربوں کو قتل کیا۔ بہتوں کو گڑھوں اور کنووں میں زندہ دفن کردیا۔ عرب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عرب عیسائیوں، دروزیوں اور علویوں کے ساتھ بھی یہی غیر انسانی سلوک کیا۔ ترکوں کا شاید انگریزوں سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے عربوں کو قتل کرکے اور جبری ہجرت پر مجبور کرکے ان کی سرزمین شام اور فلسطین پر ترکوں کو لاکر بسا دیا ۔ ایک اندازے کے مطابق نوے ہزار خاندان کو بسایا تھا اور عربوں کی زمینوں کو چھین کر ترکوں کو دیدیا تھا۔ چنانچہ مصر کی طرح انہوں نے شام اور فلسطین وغیرہ میں یہی کیا ہے۔ (www.aztagarabic.com/archives/17800)
اس کے باوجود دور حاضر میں ایک بار پھر ترکی سلطنت کی تعریف وتوثیق اوراسکی تمجید بڑھتی جارہی ہے ، حالیہ ترک صدر کو قائد ملت اسلامیہ کے طور پر شو کیاجا رہا ہے۔خود حال ہی میں کئی ایک ترکی حکام نے بھی اس بات کی اعلانیہ صراحت کی ہے کہ ہم ترکی سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے اور دنیا پر اسی طرح حکومت لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ چنانچہ انصاف وترقی پارٹی کے ایک رہنما نے خطاب عام کرتے ہوئے کہا کہ 2022 تک ہم ہزاروں اردگان پیدا کردیں گے، 2052تک محمد فاتح جیسا ترک سلطان ہمارے پاس ہوگا، 2071 تک الپ ارسلان جیسا قائد بھی ہمیں مل جائے گا ، اس طرح ترک دوبارہ دنیا پر اپنی حکومت اسی آن بان سے کریں گے اور ترکی خلافت کو دوبارہ واپس لائیں گے۔
اور ساتھ ہی تقلیدی وصوفی اوراخوانی وتحریکی تنظیموں نے بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیا اور اسی بات کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ اگست 2017 میں ابراہیم ترکی کے نام سے ایک تحریکی نے اپنے ٹیوٹر اکاونٹ پر مطالبہ کیا : (يلومون أردغان ويهددونه علي نصرته للمظلومين في مصر، وحقه أن يعين خليفة للمسلمين في المنصب الشاغر منذ 93 عاماً فهو أهل أن يعيد للأمة عزها) ترجمہ: لوگ اردگان کی ملامت کرتے ہیں اور مصر میں مظلوموں کی مدد کرنے کی وجہ سے اسے دھمکی دیتے ہیں، حالانکہ اسکا حق تو یہ ہے کہ اسے خلافت کے اس منصب پر بیٹھا دینا چاہئیے جو 93سالوں سے خالی پڑا ہے ، کیونکہ امت اسلامیہ کے عزت وفخر کو وہی دوبارہ واپس لا سکتے ہیں۔
تقلید وتصوف اور الحاد کی لعنت کا طوق پہن کر کیا ترکی مسلمانوں کی قیادت کر سکتی ہے؟:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی سلطنت نے مسلمانوں کے عقائد میں فساد برپا کرنے اور انہیں بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اسکے لئے اس نے دو راستہ اپنا یا ہے: ایک شرک وبدعت پھیلا کر، دوسرا اہل توحید کے ساتھ جنگ کر کے ۔ چنانچہ تقلید وتصوف کا زور اس حکومت کے اندر اس قدر بڑھ گیا تھا ، قبوں ، مزاروں ، خانقاہوں اور بزرگوں کے نام پر جھوٹے مقامات مقدسہ اور اشیاء متبرکہ کی اس قدر بہتات ہوگئی تھی جن کا شمار کرنا مشکل ہوگیا تھاجہاں تمام قسم کے شرک وبدعات کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔ عبد العزیز الشناوی نے اپنی تاریخ کی کتاب(الدولة العثمانیة دولة إسلامیة مفتری علیہا:1/59) میں ترکی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: (وقد کان من مظاہر الاتجاه الديني فی سیاسة الدولة تشجیع التصوف بین العثمانیین، وقد ترکت الدولة مشایخ الطرق الصوفیة یمارسون سلطات واسعة علی المریدین والأتباع، وانتشرت هذه الطرق أولا انتشاراً في آسیا الوسطی ثم انتقلت إلی معظم أقالیم الدولة۔۔ وقد مدت الدولة ید العون المالی إلی بعض الطرق الصوفیة ۔۔ وکان من أهم الطرق الصوفیة : النقشبندیة، والمولویة والبکتاشیة والرفاعیة۔۔) ترجمہ: دینی اعتبار سے ترکی حکومت کی سیاست یہ تھی کہ لوگوں کے درمیان تصوف کو زیادہ سے زیادہ پھلنے پھولنے کا موقعہ دیا جائے؛ چنانچہ صوفی سلسلوں کے مشایخ کو حکومت نے کھلی چھوٹ دیدی تھی کہ وہ اپنے اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو چاہیں کھل کر کریں۔ سب سے پہلے ترکی حکومت میں یہ سارے صوفی سلسلے ایشیائے کوچک میں پھیلے پھر دیگر دوسرے حصوں میں پہونچے۔ حکومت ترکی نے ان تمام صوفی سلسلوں کی مالی سرپرستی کی۔ اس وقت اہم صوفی سلسلوں میں نقشبندیہ ، مولویہ، بکتاشیہ اور رفاعیہ معروف تھے۔
اخوانی محمد قطب نے اپنی کتاب (واقعنا المعاصر: ص155) میں صوفی سلسلوں اور متصوفانہ طریقوں اور خرافات کی طرف اشارہ کر تے ہوئے لکھا ہے: (أما فی ظل الدولة العثمانیة وفی ترکیا بالذات فقد صارت ہی المجتمع وصارت ہی الدین)ترجمہ: عثمانی حکومت اور خاص کر ترکی میں صوفیت ہی سماج کا نمایاں پہلو تھا اور انکے یہاں اسی کو دین سمجھا جاتا تھا۔
الموسوعة المیسرة فی الادیان والمذاہب المعاصرة کے صفحہ 348 پر لکھا ہے: (البکداشیة : کان الأتراک العثمانیون ینتمون إلى هذه الطریقة وهی ما تزال منتشرة فی ألبانیا کما أنها أقرب التصوف الشیعی منها إلى التصوف السني۔۔ وکان لها سلطان عظیم علی الحکام العثمانیین ذاتهم) ترجمہ: بکتاشیہ: عثمانی ترک اسی سلسلہ صوفیت کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے، یہی سلسلہ البانیا میں بھی رائج ہے، اور یہ ایک شیعی تصوف کا سلسلہ ہے جو سنی تصوف کے زیادہ قریب ہے۔۔ اور خاص طور سے اس سلسلے کا عثمانی حکام اور سلاطین پر گہرا اثر تھا۔
الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب والسنة کے صفحہ: 411پر یہ عبارت موجود ہے: (وتنافس السلاطین العثمانیون فی بناء التکایا والزوایا والقبور البکتاشیة ۔۔ فبینما ناصرها بعض السلاطین وعارضها البعض الآخر مفضلین طریقة أخری غیرها) ترجمہ: عثمانی سلاطین بکتاشی سلسلہ صوفیت سے منسلک قبروں، خانقاہوں، قبے اور مراقبہ گاہوں کے بنانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ اس سلسلے کے حق میں تھے اور کچھ اس کے علاوہ دوسرے صوفی سلسلے کے حق میں تھے۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اکثر سلاطین بلکہ شروع ہی سے مثلا دوسرا سلطان اورخان اول (متوفی726) بکتاشی سلسلہ تصوف کے پیروکار رہے ہیں حالانکہ یہ سلسلہ خالص شیعی اور باطنی ہے جس کا بانی شیعیت اور باطنیت کا بہت بڑا داعی خنکار محمد بکتاش خراسانی ہے جس نے اپنے اس سلسلہ کو ترکی کے اندر پھیلایا تھا۔ یہ سلسلہ عقیدہ وحدة الوجود ، بزرگ ومشائخ پرستی اور روافض کے عقیدہ ائمہ کے ساتھ ساتھ انبیاء واولیاء کی شان میں غلو پر مبنی ہے۔ محمد فاتح فاتح قسطنطنیہ خود سلسلہ مولویہ کا پیروکار تھا ، فتح کے وقت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر ڈھونڈھ کر سب سے پہلے اس پر قبہ بنانے کا حکم دیا۔ مشہور سلطان سلیمان قانونی جب بغداد میں داخل ہوا ہے تو سب سے پہلے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی قبر پر گیا اور وہاں بہت بڑا قبہ بنانے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ عراق میں موجود تمام شیعہ مقامات کی زیارت کی اور ان میں جو کمزور اور منہدم ہوگئے تھے انہیں دوبارہ مرمت کرنے نیز انہیں بحال کرنے کا حکم دیا۔
سلطان سلیم اول نے جب حجاز پر قبضہ کیا ہے تو اس کے شرک وبدعت میں ڈوبنے کا اندازہ آپ اس کے ان22 خطوط سے لگاسکتے ہیں جنہیں اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مقدسہ میں آپ کے نام پر لکھ کر رکھا تھا ۔ ان میں سے صرف ایک پیرا گراف نقل کرتا ہوں جس سے اس مشرک سلطان کے مشرکانہ اور تصوفانہ عقیدے کا پتہ چل جائیگا چنانچہ ایک میں اس نے لکھا ہے: ( من عُبیدک السلطان سلیم وبعد: یا رسول الله قد نالنا الضر ونزل بنا المکروه ما لا نقدر علی دفعه، واستولی عباد الصلبان علی عباد الرحمن!! نسألک النصر عليهم والعون عليهم) ترجمہ: آپ کے بندے سلطان سلیم کی طرف سے، حمد وصلاة کے بعد : اے اللہ کے رسول، ہمیں تکلیف پہویچی ہے، ہم پر ایسی مصیبت آئی ہوئی ہے جسے ہم دور نہیں کرسکتے، رحمن کے بندوں پر صلیب کے بندوں نے قبضہ کر رکھا ہے، چنانچہ ہم ان کے خلاف آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
آخری دور کے مشہور سلطان عبد الحمید ثانی (1327ھ) کا صوفی سلسلہ شاذلیہ تھا جو خالص قبوری شرک پر مبنی سلسلہ تھا۔ یہ سلطان برابر اس وقت کے پیر طریقت ابو الشامات محمود افندی کے بارگاہ میں خط وکتابت کرکے اور خود حاضری دیکر فیوض وبرکات اور نصر وامداد کی درخواست کرتا تھا۔
جس ملک کے حکام اور سلاطین کا یہ حال ہو اسکے رعایا کا کیا حال رہا ہوگا صرف قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ ایسے ملک میں شرک وکفر اور بدعات وخرافات کا کتنا زور اور پھیلاؤ رہا ہوگا۔
عربوں اور بالخصوص توحید پرست آل سعود وآل شیخ سے ترکوں کی عداوت اور پہلی سعودی حکومت کا ترکوں کے ہاتھوں خاتمہ اور اہل درعیہ کا قتل عام:
تقلید ، تصوف ، شرک اور بدعات وخرافات میں ڈوبی ترکی حکومت عربوں اور بالخصوص توحید پرست آل سعود اور آل شیخ سے خار کھائے بیٹھی تھی ۔ اسی لئے رافضیوں ، مکہ کے حکماء آل شریف اور وہاں کے شرک وبدعت کے ٹھیکیدار علماء سوء نیز ترکی کے صوفیت اور تقلیدیت زدہ امراء کی شکایتوں پر آل سعود کی توحید پرست امارت درعیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے ترکی کے بزدل سلاطین نے فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ عثمانی سلطان کے حکم پر مصر کے حاکم محمد علی پاشا نے اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کو اس منحوس مہم کیلئے روانہ کردیا جو جدہ، ینبع، مدینہ، ریاض ہوتے ہوئے درعیہ پہونچ گیااور شہر کا چھ مہینے تک محاصرہ کئے رکھا۔ اہالیان شہر کی تکلیف جب حد سے بڑھ گئی تو کچھ معاہدات اور شروط پر وہ خود سپردگی کیلئے تیار ہوگئے اور ابراہیم پاشا بھی راضی ہوگیا۔ لیکن خودسپردگی کے بعد اس نے تمام شروط کو مسترد کردیا اور سب کو گرفتاری کا حکم دیدیا۔ پہلے اس نے اہل درعیہ ہی کے ہاتھوں سارا مال ودولت اکٹھا کرنے کیلئے کہا ، پھر انہیں کے ذریعے گھروں ، شہر کی دیواروں اور مساجدکو منہدم کروایا، باغات کو جلوایااور پھر پورے شہر میں آگ لگانے کا حکم عام کردیا۔ اس طرح پورا شہر جل کر خاکستر ہوگیا۔ پھر ان میں سے تقریبا پانچ ہزار لوگوں کو الگ کرکے جنہیں مصر اور ترکی لے جانا تھا باقی سب کو قتل کردیا گیا صرف وہی بچ سکے جو کسی طرح بھاگ کر نکل گئے۔
چنانچہ آل سعود کے کئی ایک امراء کو قتل کرنے کے بعد ابراہیم پاشا نے محمد بن عبد الوہاب کے پوتے سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب کے حاضر ہونے کا حکم دیا ۔ مجرم خود بانسری بجاکر مست ہورہاتھا اور شیخ سلیمان کو گھسیٹ کر اس کے سامنے لایا جارہا تھا پھر اسکے حکم کے مطابق فوجیوں نے آپ کو پہلے بندوق سے اس قدر گولی ماری کہ آپ کا بدن چھلنی ہوگیا ۔ پھر الخرج کے قاضی شیخ علی بن حمد العرینی کو توپ سے اڑا دیا گیا۔ حوطہ کے قاضی شیخ رشید السردی کو بھی توپ سے اڑایا گیا پھر اسی طرح یکے بعد دیگرے سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ قتل وغارت گری اور لوٹ مار سے فارغ ہوکر ترکوں نے درعیہ میں جم کر خوشی منائی۔ پھر باقی پانچ ہزار لوگوں (جن میں اکثر آل سعود اور آل شیخ کے لوگ تھے) کو مصر اور ترکی لے کر چلے گئے۔
علامہ عبد الرحمن جبرتی نے 1233 ہجری کے واقعات میں لکھا ہے کہ مصر کے اندر حجاز اور نجد سے اسی سال بہت سارے قیدیوں کو لایا گیا اور پھر مصر کے بازاروں میں انہیں بیچ دیا گیا جن میں مرد ، عورتیں اور بچے سب تھے اور وہ سب آزاد تھے نہ کہ غلام اور لونڈی۔ ان میں سے کچھ کو قاہرہ میں قتل کیا گیا اور باقی کچھ اہم لوگوں کو استنبول بھیج دیا گیا جن میں امیر عبد اللہ بن سعود بھی تھے جنہیں ایا صوفیا کے عظیم میدان میں توپ سے اڑا دیا گیا پھر باقی جسم کے حصے کو ترکوں نے ایک لمبے کھمبے میں لٹکا دیا ۔ پھر باقی ان کے ساتھیوں کو استنبول کے مختلف حصوں میں قتل کردیا گیا ۔ یہ واقعہ نومبر1818 موافق 1234 ہجری کا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ترکی حکومت نے کچھ عربوں کو استنبول اس لئے بلوا کر قتل کیا تاکہ ترک عوام کو دیکھ کر خوشی محسوس ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی حکومت کی طرف سے باقاعدہ مصری گورنر محمد علی پاشا کے ساتھ یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ اگر تم وہابیوں (یعنی آل سعود اور آل شیخ اور ان کے منہج پر چلنے والے) کا خاتمہ کردو تو مصر کی حکومت تمہارے سپرد کردیا جائے گا۔ چنانچہ اسی انعام کو حاصل کرنے کیلئے ملحد محمد علی پاشا نے اپنے خونخوار بیٹے ابراہیم پاشا کو اس منحوس مہم کو انجام دینے کے لئے درعیہ روانہ کیا تھا ۔ یہ ساری تفصیل درج ذیل کتابوں میں مل جائے گی:
۱- عنوان المجد فی تاریخ نجد ، تالیف: ابن بشر
۲- عجائب الآثار فی التراجم والاخبار ، معروف بتاریخ جبرتی، تالیف: عبد الرحمن الجبرتی المصری
۳- بدائع الزہور فی وقائع الدہور (فی تاریخ مصر) ، معروف بتاریخ ابن ایاس، تالیف: ابن ایاس
۴- رحلة من تفلیس إلی استانبول، تالیف: الکولونیل روتیر(Colonial Router)
۵- تاریخ العربیة السعودیة، تالیف : روسی مورخ فاسیلیف (Vasiliev)
۶- حاضر العالم الاسلامی، تالیف: ستودارد (Stoddard)
یہ رافضیوں اور تقلیدیوں کی جھوٹ ، تہمت اور پروپیگنڈوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عربوں نے انگریزوں کے ساتھ ملکر عثمانی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی اور لارنس آف عربیہ کی سازش سے عرب قومیت کا نعرہ بلند کرکے ترکوں کو عرب چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ترکی خلافت اپنے آخری دور میں جس کسمپرسی، بدحالی، قرضوں میں ڈوبی ہوئی، فوج کی بار بار شرارتیں، عوام کے مظاہرے، جگہ جگہ بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا سمٹنے اور دشمنوں کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے نیز اسی طرح اس کے زوال در زوال کے حالات سے گزرنے کے جہاں بہت سارے اسباب ہیں ان میں نمایاں اسباب حکومت کے تمام حصوں میں صوفیت اور قبوریت کا پھیلنااور حکومت کا اسکی مکمل طور پر سرپرستی کرنا، اندھی تقلید میں ڈوبنا نیز اہل توحید سے مخالفت ، عربوں سے دشمنی نیز ان میں توحید پرست پہلی سعودی حکومت کے خلاف چڑھائی کرنا اور وہابیت کے نام پر کافر قرار دیکر انہیں قتل کرنا اور قیدی بنانا نیز انکے عورتوں اور بچوں کو غلام اور لونڈی بنانا ہے۔
چنانچہ ترکی سلطنت پہلے ہی سے بہت کمزور تھی ہی نیز پہلی عالمی جنگ میں اتحادیوں کے خلاف ہوکر اور جرمنی کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہر چہار جانب سے مار پڑنی شروع ہوگئی اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کے بلاد شام اور عرب علاقوں میں چڑھائی کرنے کی وجہ سے ترکوں کو مشرق وسطی سے پسپائی اور ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اناضول، ایشیائے کوچک اور موجودہ ترکی کے علاقوں کو چھوڑ کر تقریبا سارے محکوم علاقوں سے ترکی کو ہاتھ دھونا پڑا۔اس آخری دور میں ترکی حکومت اس قدر کمزور ہوگئی تھی کہ یورپ والوں نے بلکہ پوری دنیا نے اسے یورپ کا مردِ بیمار کا لقب دیدیا تھا۔یعنی ترکی حکومت اب کسی لائق نہیں رہ گئی۔ اور ہوا بھی یہی کہ 1923 میں جس بری حال میں حکومت کا خاتمہ ہوا اسکا ایک مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
1916 میں گیلی پولی کی مشہور لڑائی میں انگریزوں کی ایک خطرناک سازش کے تحت ترکی کے حق میں اس ہاری ہوئی جنگ کو یورپ نواز، ملحد ابن یہود مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں جیت میں بدل دی گئی جس نے جھوٹی فتح کا کریڈٹ بٹور کر اتاترک یعنی بابائے قوم کا خطاب حاصل کر لیا اور اسے قوم کے عظیم ہمدرد اور رہنما کے طور پر شہرت دی گئی۔ اسی جھوٹی مشہور جیت کی وجہ سے مصطفی کمال جب پورے ترکی میں چھاگیا تو اپنے صہیونی اور صلیبی کارڈ کو استعمال میں لاکر1923 میں خلافت کو ملغی کرکے اسکی بچی ہوئی ساکھ کو مٹا دیا ،خلیفہ کو قید کردیا، ترکی کے اندر تمام اسلامی قوانین کا خاتمہ کرکے ملحدانہ وضعی قوانین کو نافذ کر دیا نیز اسلامی شعائر اور عربی زبان کا خاتمہ کرکے ترکی سے دین اسلام کا نام ونشان تک مٹانے کا پورا تہیہ کرلیا تھا۔
آج کل ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی قرار دیئے جانے والے فیصلے کو لیکر سب سے زیادہ ترکی کے صدر اردگان اور تمام تحریکی واویلا مچا کر اہل فلسطین کی ہمدردی لوٹ رہے ہیں جبکہ یہی تر کی ہے کہ یہودی ریاست اسرائیل کو سب سے پہلے مسلمانوں میں مصطفی کمال کے جانشین عصمت اینونو نے 1949 میں فلسطینی سرزمین پر بحیثیت آزاد ریاست تسلیم کرکے اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیدیا۔ اسی طرح گزشتہ سال 2016 میں اسی اتاترکی نقش قدم پر چل کر ترکی کے موجودہ صدر اردگان نے بیت المقدس کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کر کے مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ اور انہیں دھوکہ دیا ہے۔
جس طرح قدیم ترکی نے عربوں سے ہمیشہ بغض وعداوت رکھی ہے بالکل اسی طرح اسرائیل اور ایران سے دوستی کر کے جدید ترکی بھی عربوں سے اسی عداوت پر باقی ہے۔ قدیم وجدید بغداد معاہدہ اور اسرائیل کا ترکی کے ساتھ مل کر عرب مخالف مثلث معاہدہ اس کا بین ثبوت ہیں۔ ساتھ ہی عربوں کی زمین پر یہودیوں کے وطن کو تسلیم کرنا نیز عوام کے سامنے خطاب میں ترکی کے موجودہ رہنماؤں خصوصاً اردگان کا یہ بار بار اعلان کرنا کہ ہم اپنے سابق رہنماؤں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں عرب مخالفت اور ان سے عداوت کو مزید واضح کر دیتے ہیں۔
بغداد معاہدہ :
چاہے معاہدہ بغداد (Baghdad Pact) قدیم ہو جوکہ 1955 میں انگریزوں کے ساتھ ملکر ترکی اور ایران نے عربوں کے خلاف بنایا تھا جس میں امریکہ کے دباؤ میں آکر پاکستان اور برطانیہ کے دباؤ میں آکر عراق نے بھی شمولیت اختیار کر لی تھی لیکن عراق نے 1959میں جب اس سے نکل گیا تو اس کا نام سینٹرو معاہدہ CENTRO(Central Treaty Organization) پڑ گیا۔ جس کا واحد مقصد مشرق وسطی میں کمیونسٹ رجحان کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا تحفظ تھا۔ یا اکتوبر 2015 کا وہ معاہدہ ہو جو ترکی نے ایران اور عراق کے ساتھ مل کر کیا ہے جسے جدید بغداد معاہدہ بھی کہا جارہا ہے۔ اس کا بھی اصل ہدف مشرق وسطی میں عربوں بالخصوص سعودی عرب کے اثر ورسوخ کو ختم کرنا ہے ۔ کیونکہ چاہے ایران ہو یا ترکی دونوں نے عربوں کو ہمیشہ سے گنوار اور عرب صحراء کا بدو ہی سمجھ رکھا ہے اور کبھی بھی عالمی سیاست میں انکو اہمیت نہیں دی ہے۔ اور جس طرح ایران عربوں کے حساب پر اپنا قدیم گریٹر ساسانی مجوسی حکومت واپس لانے کے فراق میں ہے بالکل اسی طرح ترکی بھی عربوں کو کمزور کر کے انہیں کے حساب پر اپنی کھوئی ہوئی عثمانی سلطنت کو واپس لانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اور ساتھ ہی دونوں یعنی ایران درپردہ اور ترکی کھل کر گریٹر اسرائیل کے قیام میں یہودیوں کا پورا پورا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس طرح مشرق وسطی میں تینوں باہم متعاون بن کر اپنے اپنے خوابوں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت تینوں کے عزائم خاک میں ملائے۔ آمین
انٹی عرب مثلث اسرائیلی معاہدہ(JEWISH TRIDENT PACT):
مشرق وسطی میں اسرائیل کا یہ پہلا غیر عرب مسلم ممالک پر مشتمل معاہدہ تھا جس نے اسے خارجی اتحاد (Alliance of the Periphery) یا عربوں سے نپٹنے کیلئے خارجی اصول(Periphery Doctrine) کا نام دیا۔ اور اس معاہدے میں یہودیوں نے ترکوں اور ایرانیوں کو استعمال کیا۔ اور تیسرا کونا پورا کرنے کیلئے اس نے اتھیوپیا کو ساتھ رکھا جہاں بھاری اکثریت میں مسلم کمیونٹی موجود ہے۔ یہ صلیبی ریاست بھی اسرائیل سے کم ظالم نہیں ھے۔ مکار یورپ کی سازش سے مسلم اکثریتی ملک میں مٹھی بھر مسیحی جبری حکومت کر رہے ہیں جہاں یہودیوں کا بھی بڑا عمل دخل ھے بلکہ مشرق وسطی اور افریقی مسلم ممالک کے خلاف یہ ملک صلیبیوں اور صہیونیوں کی سازش کا مرکزی اڈہ ھے۔
ایران نے اسی معاہدے کے تحت 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو مکمل طور پر تیل اور ضروری جنگی اشیاء کی سپلائی کی تھی۔
7/مئی 2015 کے دن امریکہ کے مشہور نیوز پیپر (فارین افیئر) میں مشہور اسرائیلی صلاح کار اور قلمکار(Yossi -Joseph- Alpher) نے لکھا ہے:
(The program represented the vanguard of Israel's doctrine for dealing with its neighbors and provided the nation with a grand strategy for the first time since its creation. Both Iran and Turkey understood Jewish influence in the United States and perceived that a close relationship with Israel would mean that the U.S. Jewish lobby would convey their needs to Washington.)
ترجمہ: یہ پروگرام اسرائیل کیلئے اس بات کی تمہید تھی کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ برتاؤ کرنے میں کیسا اصول اپنائے نیز اسی پروگرام نے قیام اسرائیل سے اب تک قوم یہود کو ایک بہت بڑی حکمت عملی فراہم کردی۔ ایران اور ترکی نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا کہ امریکہ میں یہودیوں کا اثر ورسوخ بہت مضبوط ہے اور اسرائیل سے پکی دوستی کا مطلب امریکہ میں موجود یہودی لابی انکی تمام ضرورتوں کو واشنگٹن کو پہونچائے گی۔ (www.foreignaffairs.com/articles/turkey/2015-05-07/trident-s-forgotten-legacy%3famp)
یہ عرب مسلمانوں کے ساتھ دشمنوں کے ساتھ مل کر غیر عرب مسلم ملکوں (ترکی اور ایران)کی ایک بہت بڑی سازش ہے جو کسی بھی عقلمند کیلئے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ترکی کے خلاف عرب ہولوکاسٹ کا مقدمہ:
جس طرح یہودیوں نے جرمنی کے خلاف یہودی ہولوکاسٹ کا قانون لاگو کروا کے معافی مانگنے پر مجبور کیا اور بھاری جرمانہ بھی وصول کیا، اور ارمن قوم نے ترکی کے خلاف بیس یورپی ممالک سے زیادہ کا ساتھ لیکر اقوام متحدہ ، یورپین پارلیامنٹ اور دوسری عالمی وملکی تنظیموں کے ذریعے(ارمن ہولوکاسٹ)کا قانون پاس کرایا ہے بالکل اسی طرح عربوں کے خلاف ترکوں کے ظلم وستم اور اجتماعی قتل وغارت گری کی وجہ سے بھی بہت سارے لوگوں نے مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے کہ عربوں کو عالمی اور ملکی پیمانے پر ترکی کے خلاف عرب ہولوکاسٹ کا قانون پاس کروانا چاہیئے۔ چنانچہ ڈاکٹر عبد الحمید سلوم نے (Arab Times Blogs) پر اسی مسئلے کو لیکر ایک بھاری مضمون لکھا ہے جس کا عنوان کچھ اسطرح ہے: (لماذا لا یطالب العرب أسوة بالأرمن باعتذار الأتراك عن مجازر العثمانیین)یعنی ارمن قوم کی طرح عرب کیوں نہیں مطالبہ کرتے کہ ان کے خلاف عثمانیوں کے قتل عام پر ترکی معافی مانگے؟آگے لکھتے ہیں کہ ترکی کے حالیہ صدر اردگان سے گرچہ اس بات کی امید نہیں ہے کہ وہ معافی مانگیں گے کیونکہ جدید ترکی میں یہ جناب سب سے زیادہ اپنے آباء واجداد پر فخر کرنے والے ہیں۔ جیسے ارمن قوم کے قتل عام پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے یہاں بھی کردیں گے۔ لیکن پھر بھی عربوں کو اپنے اپنے ملکوں میں اور عالمی پلیٹ فارموں پر یہ قانون لانا چاہئیے۔ آگے لکھتے ہیں: (هل نسي آل سعود ما فعله العثمانیون بحق أجدادهم وما ارتکبوه بهم من قتل وتشنیع، والطریقة المهینة والبشعة التی قتلوا بها عبد الله بن سعود ثم طافوا به ثلاثة أیام فی أسواق الأستانة بعد أن قضی حکام مصر بأمر من العثمانی علی دولة آل سعود الأولی)ترجمہ: کیا آل سعود بھول گئے وہ سارے جرائم اور قتل وغارت گری جن کا ارتکاب عثمانی سلاطین نے ان کے آباء واجداد کے حق میں کیا تھا، اور کیا اس بھیانک اور ذلت آمیز طریقے کو بھی بھول گئے جس طرح سے ان کی پہلی حکومت کو عثمانی سلطان کے حکم پر حکام مصر نے تباہ کیا اور کس طرح امیر عبد اللہ بن سعود کو ان ظالموں نے قتل کرنے کے بعد تین دن تک آستانہ کے بازاروں میں گھماتے رہے ۔
وہابی اور کافر کہہ کر عربوں پر ترکوں نے جتنے بھی ظلم ڈھائے ہیں ان میں عربوں کا خصوصا آل سعود کا سوائے اس ایک غلطی کے اور کچھ نہیں تھا جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے:(
وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ) ترجمه: یہ لوگ ان مسلمانوں سے بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے) سورہ بروج: 8۔ تفصیل کیلئے دیکھیں یہ ویب سائٹ: (www.aztagarabic.com/archives/17800)
mdabufaris6747@gmail.com
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=11103&date=2017-12-26
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1513488448764437&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق