مولانا سلمان ندوی اھل تقلید کی نظر سے کیوں گرے؟
بیچارے سلمان ندوی کو AIMPL بورڈ نے باہر کا رستہ دکھا دیا ھے۔ بظاہر یہی مشہور کیا جا رہا ہے کہ مولانا نے اجودھیا کی بابری مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے اور متنازع جگہ ہندووں کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ان کی اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ان کی بورڈ کی رکنیت ختم کر دی۔ سارے مقلدین مولانا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کوئی سلمان رشدی کہہ رہا ہے کوئی حکومت کا پٹھو کہہ رہا ہے کوئی غدار کہہ رہا ہے۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہیں جس کے مولانا مستحق بھی ہیں۔
وہیں مولانا کے اچانک اس موقف کے اختیار کرنے کے پیچھے مولانا کی دو ذاتی مصلحتیں بتائی جاتی ہیں:
اول: امیر المخربین داعشی بغدادی کو خط لکھ کر امیر المومنین کہنے پر مولانا انڈین نیشنل سیکیورٹی کی نظر میں آگئے تھے۔ اسی عظیم گناہ کے کفارے کے لئے مولانا یہ نا مسعود قدم اٹھانے پر مجبور ھوۓ۔
دوم: کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے والوں کی طرف سے مولانا کو ایک یونیورسٹی بنانے کا آفر دیا گیا ہے جس کا انہوں نے بار بار ذکر بھی کیا ہے۔ حرص و طمع بھی کیا ذلت آمیز ہے کہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے۔
ویسے مولانا اس مصلحتانہ رواداری میں تنہا نہیں ہیں۔ اس کی کئی نظیریں موجود ہیں:
انہدام کے وقت ہی اس طرح کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اور یہی تجویز بار بار حدیبیہ والے مولانا بھی بار بار پیش کر چکے ہیں۔
مولانا سے پہلے اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے حکومت کی نظر میں اچھا بننے کے لئے اس طرح کی تجویز پیش کر کے مولانا کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا۔
ابھی آج (١١/فروری) کو یونائٹیڈ مسلم مورچہ کے صدر اور سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ایم اعجاز علی نے اجودھیا تنازعہ کے حل کے سلسلے میں مولانا سلمان ندوی کے فارمولے پر غور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے کہ عدالت عظمی اس متنازع زمین کو برادران وطن کے حوالے کردے۔
لندن میں قائم ورڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری نے بھی اس تجویز کی تائید کی ہے۔
اس کے علاوہ بھی مولانا کے بقول سنی وقف بورڈ کے بہت سے افراد اس موقف کے حامی ہیں۔
وشھد شاھد من أھلھا کے تحت سلمان ندوی کو مسلم پرسنل لا بورڈ سے بھی تائید ملنا شروع ھو گئی ھے۔ چنانچہ آج 12/ فروری کو مولانا کی تجویز پر سرکردہ شیعہ مذہبی رہنما اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق نے کہا ہے کہ اجودھیا میں رام مندر کی جگہ ودیا مندر کی تعمیر ہونی چاہئے ۔ رام مندر کے معاملہ پر بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مندر ضرور بنے ، لیکن ودیا مندر بنے ۔
ملک کی تکثیریت تو مولانا کا فارمولا سن کر ڈھول بجا ہی رہی ھے۔
ویسے تحریکیوں کی طرف سے مولانا کو واضح تائید نہیں مل رہی ہے سوائے چند اندھ بھکتوں کے جو پیچ و تاب میں مبتلا ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مولانا ہی کے پیچھے سب کیوں پڑ گئے؟
میری سمجھ میں مولانا نے اس وقت جس ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ ان کا تقلید کو طلاق دینا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے باپ داداؤں کی روش چھوڑ کر کبھی طلاق کے مسئلے میں اہل حدیث کی رائے لینے اور کبھی بابری مسجد کے مسئلے میں حنبلی رائے لینے کی بات کر ڈالی۔
ویسے مولانا کی چال تو گرگٹ جیسی ہے ہی۔
➖➖➖➖➖➖➖➖
💥تصوف ذدہ سید واڑے کی کاشت کرنے والے
سلمان دیوبندی صوفی ندوی رشدی
تحریر : شیخ عبدالمعید عبدالجليل مدنی حفظہ الله
مدیر: ماہ نامہ الاحسان نئی دہلی👇👇👇👇
اندھے مقلد بیچارے کیا جانیں عیار مولوی کی چالیں۔ دراصل یہ کاشت ہے یک صد سالہ گھرانے کی زاھرانہ چالوں کی۔ تاریخ پڑھئے اور حَسنی چھاپ تذکرے سوانحی خاکے۔ موجودہ بدعنوانیوں کی ابتدا 1908 سے ہوتی ہے جب حکیم سید عبدالحئی حسنی نے شبلی کو بے دخل کرنے اور ندوہ پر قبضہ کرنے کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصوف کا ایک چہرہ آخری درجہ کا بے رحم
قصائی ہے نظام جو ماتحتوں کا خاموشی سے نام ونشان ختم کر دیتا ہے ۔اور اس جبر کو وجہ فضیلت بنا دیتا ہے۔ کم از کم سو سال سے بر صغیر کے صوفیاء تصوف سے یہی کام لے رہے ہیں۔ حسنی گھرانے نے تصوف کو اس کام کے لیے بھر پور انداز میں استعمال کیا۔ حکیم عبدالحئی کی تحریروں اور سرگرمیوں کو دیکھ لیں ۔اسی طرح علی میاں کی تحریروں اور سرگرمیوں کو دیکھ لیں، ان کے گھرانے کے دیگر حضرات کی تحریروں اور سرگرمیوں کو چیک کرلیں سب کے درمیان لب ولہجے اور فکر میں یکسانیت نظر آئے گی۔
ہم بڑے، ہمارا خاندان سب سے اہم اور بلاوجہ سید شہید کو اپنا سر نامہ بنانا اور پیہم بنانا جب کہ اس شاخ کو سید کے مشن سے کوئی مطلب نہ تھا۔
حکیم عبدالحئی اور علی میاں کی بنفسجی یرقانی اور ایغو چھاپ تحریریں انتہائی میلی اور گمراہ کن تحریریں ہیں مگر پروپیگنڈہ اور رنگِ تصوف کی طاقت پر سب پر حاوی ہیں.
میں نے1980ء میں ہی علی میاں کی کتابوں کو اپنی لائبریری سے نکال دیا تھا۔ ان کی تحریروں کو دو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے ۔
1- تبریری یعنی سب صحیح یا یوں کہہ لیں لیپ پوت والی تحریریں۔ جن کو اپنا سمجھا ان کے متعلق لیپا پوتی اور جن کو مان لیا انکے متعلق لیپا پوتی۔
2-اپنی اور گھرانے کی بڑائی بہت باریک چالوں سے کہ عموما پتہ نہ چل سکے۔ مثلا عاجزی کے ساتھ، تجزئیے کی روئی میں لپیٹ کر، اظہار حقیقت کے نام سے، واقعات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر۔۔۔۔
اس سوچ اور ذہنیت نے آزادی کے بعد مسلم تاریخ اور تذکرے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ اور ان کو ذاتی بڑائی کا مسالہ کر رکھ دیا. اور اہل حدیث تک پر ان کا سکہ بیٹھ گیا۔
اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ گھرانے کی ذہنیت ڈومینیٹیو اینڈ پوسیسیو بن گیا۔ اسی لیے میں نے بارہا لکھا علی میاں کی زندگی میں دو کام تھے کرسی صدارت، خطبہ صدارت۔
ہر فرد اور قوم کی اچھی یا بری ذہنیت بن جاتی ہے کوئی اس سے مبرا نہیں ہے۔
اس گھرانے کی ذہنیت ہے بڑائی کی طلب اور بڑائی کی حفاظت، دل کی دنیا ایک سمندرہے. جب وہ دنیا پر ریجھ جائے توسو بھیس بدلتاہے اور اپنی پسند کو ایسا خوبصورت لباس پہناتاہے کہ آدمی اس پر فدا ہو جائے۔
ان کی ساری سرگرمیوں کا یہی حال ہے ندوہ سے شروع کریں پھر دارالمصنفین، انجمن تعلیمات دین، مسلم مجلس مشاورت، مسلم مجلس، تبلیغی جماعت، مسلم پرسنل لاء بورڈ، اسلامی ادب کی عالمی انجمن، غیر مسلموں میں منہ مارنے کی انجمن، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ۔۔۔۔
ہر جگہ اونچی کرسی کے لیے گُھسنا اور خطبہ صدارت کےلیے بے تابی۔
اس فرومایہ جذبے اور طلب سے اقربا اور ہم نشینوں کی کیسی ذہنیت بن سکتی ہے۔ سلمان ندوی، محسن عثمانی اور عبداللہ عباس اس کی بہترین مثال ہیں۔
سلمان ندوی تنہا خودپرست اور مجرم امت نہیں ہے ۔ یہ پورے گھرانے کی پود ہے ۔ ایسا خودسر گرگٹی__گرگٹ سے، گھات لگانا، رنگ بدلنا ، منافقت کرنا ، شیخی دکھلانا__لگا کر ندوہ میں بیٹھا ہے۔ کیوں؟
اگر گھرانے کی منوپلی کی بات نہ ہوتی تو اسے کب کا کان پکڑ کر نکال باہر کردیاجاتا۔ سپوز کرو اگر نور عظیم ندوی جیسا باوقار، ذی علم، رعنا سیرت وکردار کا انسان سلمان جیسی پانج فیصد مذبوحی حرکت کرتے تو غاصبین ندوہ انھیں برداشت کرتے۔ ان لوگوں نے ملت اسلامیہ ھند مشترکہ پلیٹ فارم پر سب سے پہلے قبضہ کیا ہے۔سلمان اس پھوڑے کا پیپ ہے۔اس ولکینو کا انفجار ہے۔ اس مشکل متن کی شرح ہے۔ اس صد سالہ چھپی ہوئی کہانی کانقشں نمایاں ہے۔
آپ بتائیں علی میاں چالیس سال سعودی عرب اور اس کے اداروں میں گھسے رہے اور ہر طرح ان سے مستفید ہوتے رہے، اپنے ساتھ رابطہ میں منظور نعمانی صاحب کو بھی گھسائے رکھا ان کے چہیتے سلمان اور وہاں کی جامعات سے ایم اے کرکے نکلے یہی اس وقت سعودی عرب اور اس کے مسلک سلفیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ بتایاجائے کون سچاہے یہ یا وہ۔ بات دراصل یہ ہے کہ عداوت کا سبق وہیں سے ملا۔۔بات طبیعت کی نرمی گرمی کا ہے۔ حالات و ظروف کا ہے۔مصالح کےبناؤ بگاڑ کا ہے۔ لوگوں کےلیے یہ سوال بے معنی ہے۔ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ نقصان ہمارا ہوا ہے۔دھوکہ ہمارے ساتھ ہواہے۔
بروقت بابری مسجد کے اس کی ہرزہ سرائی کے اس پوسیسیو ذہنیت ہے۔ اس نےملت اسلامیہ ہند کو نیلام کا سامان سمجھ رکھا ہے۔ دراصل یہ اپنے بڑبولےپن کے سبب بھگوا دھاریوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔اس کو تاریکی کے رکھوالوں کے احکام پر عمل کرنا پڑے گا یہ اس کی مجبوری ہے۔
اس کے لیے دلیل وحجت کیا چیز ہے۔ اس کا نفس ناطقہ اسکے لیے سب کچھ ہے۔
امت کی تاریخ میں ایسی مشکلیں آئیں اور آتی رہیں گی۔ خود حوالگی خودکشی ہے اور ہزاروں خون ناحق کے ساتھ غداری ہے۔
دشمن اگر اصولی اور سمجھدار ہو تو اس سے ڈیل آسان ہو تاہے۔یہاں تو سارے کے سارے مسلم فری انڈیا کا نعرہ لگاتے ہیں ایک چھوڑوتو سو کے چھوڑنے کا مطالبہ سامنے ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈکے ہاتھ میں بابری مسمجد کا کیس ہے ۔کسی سر پھرے خودپرست ،مطلب پرست اور دلال کو شرعا اخلاقا اور منہجاً کوئی اختیار نہیں کہ بابری مسجد کے متعلق بات کرے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1559920604121221&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق