🌶إيمان وعقائد کے نام سے الرجی کیوں؟🌶
[[محمد طاہر مدنی صاحب ہندوستانی تحریکیوں میں ایک مقبول عالم مانے جاتے ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی سے صرف فارغ ہی نہیں بلکہ سعودی حکومت کی طرف سے مبعوث بھی ہیں۔ تحریکیوں کے ایک معروف مدرسہ جامعة الفلاح میں پرھاتے ہیں۔ میں انہیں معتدل سمجھتا تھا لیکن جب آنجناب کا درج ذیل مضمون پڑھا تو سمجھ میں بات آئی کہ محترم سلفیوں کے کتنے مخالف ہیں۔ پہلے اس عنوان:
((خلافت اور اسلامی حکومت کے نام سے الرجی کیوں؟)) سے اس پوسٹ کو پڑھیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=305918610213702&id=100023866959606
میرے خیال میں اگر موصوف سعودی وزارت سے مبعوث نہ ہوتے تو سعودی حکومت کے خلاف سلمان ندوی ہی کی زبان استعمال کرتے۔ وہ تو خیر منائیے ابتعاث نے زبان وقلم کو روک رکھا ہے لہذا صرف اشارے کنائے سے کام چلا رہے ہیں۔
میرا صرف ایک سوال ہے کہ خلافت سے مولانا نے کون سا ورزن مراد لیا ہے: خمینی ورزن کہ جسکی تبریک مولانا مودودی نے کی تھی، اسے سراہا تھا، خمینی کے پاس محبت اور مبارکبادی کا پیغام بھیجا تھا نیز اسی ورزن کی خلافت پاکستان میں قائم کرنے کی تمنا کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یا حکمتیاری ورزن کہ جس نے شیخ جمیل الرحمن کی کی امارت شرعیہ کو اخوانیوں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے تحت ختم کرکے قطبی خارجیت پر مبنی حکومت قائم کی تھی اور جس سے راشد غنوشی اور اردگان نے جاکر فیض اور برکت حاصل کی تھی۔ یا مرسی اخوانی ورزن کہ جس نے کہا تھا کہ شرعی قوانین نفاذ ممکن نہیں مصر کے قدیم دستور میں اسلامی اصول موجود ہیں پارلیمنٹ ہمارا قانون ساز ہے۔ یا غنوشی ورزن کہ جس سے ٹیونس میں الحاد اور اباحیت پسندی کا دور دورہ نطر آ رہا ہے۔ یا حوثی فسادی ورزن کہ جس سے سلفی دشمنی ہر تحریکی کو پیار اور ہمدردی ہے جو اہل بیت کے نام پر نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔ یا اردگانی ورزن کہ جہاں کمالی کمیونزم کے راستے ہم جنس پرستی اور ساری برائیوں کو قانونی درجہ حاصل ہے۔ یا خلافت سے مولانا خلافت علی منہاج النبوہ مراد لے رہے ہیں؟
اب مولانا طے کریں کہ خلافت سے کون سا ورزن مراد لے رہے ہیں ؟ اگر موجودہ ایڈیشنوں کو مراد لے رہے ہیں تو سلفیوں کو ان سے الرجی ہی نہیں بلکہ ان پر لات مارتے ہیں اور اگر خلافت علی منہاج النبوہ مراد لے رہے ہیں تو سارے سلفی اس کے طرف ہیں لیکن کیا مولانا بھی یہی مراد لے رہے ہیں اور مذکورہ تمام ایڈیشنوں کو لات مارنے کیلئے تیار ہیں؟؟؟؟؟
میں نے سوچا تھا کہ اس مضمون پر تبصرہ کروں لیکن بروقت ایک فاضل دوست کی طرف سے ایک بہترین اور پر مغز چھوٹا مضمون ہی مل گیا چنانچہ اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی خارجی ذہنیت سے دور رکھے اور توحید پرست بنائے۔]]
=========================================
💥آپ جس موضوع پر چاہیں بات کریں، غلبہ خمینیت کی بات کیجیے، مرسیت کی بات کیجیے، مسلم حکمرانوں کی تکفیر کی بات کیجیے، جہاں اسلامی حکومت کا باقاعدہ نفاذ ہے وہاں کی حکومت کو ختم کرکے شیعیت اور شرک وکفر کو ترویج دینے کی بات کیجیے، نہ کانوں کی لو تھرتھراے، نہ اس پہ جوں رینگے، مگر جوں ہی بات توحید کی اشاعت کی، شرک وکفر کی بیخ کنی کی ہو، پیٹ میں نہ صرف مروڑ شروع ہوجاتا ہے بلکہ پیٹ خراب بھی ہوجاتا ہے، اس حد تک ناقابل برداشت کہ گندگی پورے سوشل میڈیا کو بدبودار کردیتی ہے ...
آپ حیض ونفاس والے لوگ ہیں، طہارت اور صلاہ کی بات کرتے ہیں، طلاق اور میراث کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، پورے دقیانوس ہیں، ڈرپوک ہیں، مفلوک المخ ہیں، نادان ہیں، تحریک اسلامی کے خلاف خبث باطن کے شکار ہیں ...اففف
عصر حاضر کی ساری غیر مہذب سڑک چھاپ ممکنہ غلاظتیں الٹ دیتے ہیں، کتاب وسنت کے محافظین اور اس پر عمل پیرا مخلصین کے خلاف برہنہ پیرہن ہو کر نکل پڑتے ہیں، ان انقلابی حضرات کو خمینی کی نماز کی امامت منظور ہے مگر مجال کہ حافظ عالم شاہ سلمان کے پیچھے ایک وقت بھی قبول کرلیں.
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اللہ کے بندو! یہ دور آزادی اظہار رائے کا دور ہے، کتاب وسنت کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے، حق کی حقانیت اور باطل کی گمرہی کو واضح کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے، ظاہر ہے آپ بدبو پھیلائیں گے تو ہمیں عطر کی شیشی انڈیلنا ہی پڑے گی، خدا کے واسطے یہ کام تو کرلینے دیں، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برسرعام گالیاں دینے پر قد غن لگانے یا ان کی مخالفت کی بات کیجاتی ہے تو یہ حضرات کہتے ہیں ہو بھی تو مسلمان ہیں ہماری طرح... یہ مسلمان تو ہوں گے مگر آپ کی طرح ہماری طرح نہیں، دعا کیجیے اللہ آپ کا حشر بھی انہیں کے ساتھ کرے.. شرک وکفر کے فروغ کا قلع قمع کرنے پر تبادلہ خیال کیا جائے تو یہی حضرات گویا اپنے منہاج کی مدافعت میں سر بکف نکل پڑتے ہیں، توحید کی نشر واشاعت اور اسکے تقاضوں کے لیے کام ہو یہ حضرات اپنی کبیدگی ظاہر کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے ہیں، انہیں توحید الکلمہ کیلیے کلمہ التوحید کو قربان کرنا پڑے تو ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، کم از کم اتنا ایمان تو ہونا چاہیے کہ ایمان وعقائد کہ اصلاح میں دن رات سرگرداں رہنے والوں کیلیے دعائیں نہ سہی خاموشی تو اختیار کر سکتے ہیں، عصر حاضر کی معروف صلواتیں سنانے کی زحمت تو نہ فرمائیں...
◀️یہ عجیب تضاد فکر ونظر ہے کہ اسلامی حکومت کے پاس داران خواہاں ہیں کہ اسلامی نظام کا نفاذ ہو، سعودی عرب میں توحید کی پوری حقانیت اور صداقت کے ساتھ اسلامی نظام نافذ العمل ہے، مگر یہ حضرات اس سے راضی نہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ حسد ہے، بغض ہے، دشمنی ہے، حکومت کا لالچ ہے کیا ہے... سچ پوچھو تو یہ لالچی لوگ ہیں، حکومت کے لالچی، اگر یہ واقعی مخلص ہیں تو انہیں کم از کم جہاں اسلامی حکومت اسلامی نظام کے ساتھ قائم ہے وہاں سے تو راضی ہوں، مگر نہیں، کبھی نہیں...
حرم فروش فقیہوں کے حوض کوثر سے
مغنیہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے
پوری دنیا میں اسوقت جو کشت وخون کا بازار گرم ہے وہ صرف اور صرف اسی انقلابی فکر کا نتیجہ ہے...
خدارا اللہ کے بندو! ہوش کے ناخن لو، آؤ ہم تم کو بتاتے ہیں اصل دین کیا ہے، کن مسائل کو اولیت حاصل ہے، کن کا ترجیحاتی میزان بھاری ہے، *ہم میں اور تم میں یہی فرق ہے کہ ہم إعلاء کلمہ کے بھی داعی ہیں اور تم إعلاء کلمہ اللہ کے ہی داعی ہو*، تمہیں پوری شریعت کے صرف اسی ایک مسئلہ سے دلچسپی ہے، تمھارا آغاز وانجام دونوں اسلامی حکومت کے نفاذ پر تمام ہوتا ہے اور ہمارے نصاب کا پہلا درس توحید ہے، شرک کا خاتمہ ہے، عقائد، کتاب الصلاة، زکاہ، جہاد، فضائل، اخلاقیات سب ہمارے چیپٹر کا حصہ ہیں، مگر تم ان سب سے منہ چراتے ہو.
آجاو ہم تمھیں شریعت کا تدریجی رویہ بتاتے ہیں، تمھارے آباؤ واجداد نے تمھیں نہیں بتایا ہوگا، دیکھو ان انتخابات میں نیتاوں کی طرح ووٹوں کی بھیک مانگنے سے اسلامی خلافت نہیں قائم ہوجایے گی، پہلے اپنے دل کی دنیا آباد کرو، اسے شرک والحاد اور بے دینی کی آلودگیوں سے منزہ کرو، توحید کے تقاضے سمجھ لو، انہیں پورا کرنے ترکیبیں سوچو، دینی شعائر کی پابندی کرلو، ایک خوبصورت سا گاؤں تشکیل پا جایے گا، پھر کیا رفتہ رفتہ اسلام اپنے اصلی عقائد وافکار کے ساتھ روشن سورج کی طرح نکل پڑے گا اور کفر کی تمام تاریکیوں کا پردہ چاک کرے گا.
خدا را ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھو.....!!
تمھیں اسلامی خلافت کی غلط تفہیم اور بے ہنگم زاویہ فکر نے کہاں سے کہاں لاکھڑا کیا - تم اللہ کے کلمہ کی سربلندی کیلیےکھڑے ہوئے تھے، اور اب تم صرف ایک شخص کے فکری غلام ہو، صرف ایک شخص کی کتابیں پڑھتے ہو، اسی کے گن گاتے ہو، اسی کی خدمات بیان کرتے ہو، بخدا مجھے ڈر ہے کہ کل بروز قیامت اللہ کے حضور وہ یہ کہ کر براءت نہ کرلیں :
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.
پھر یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کل آپ ہی نہ کہ بیٹھیں :
رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا.
بخدا یہ مبالغہ نہیں کہ تم قرآن مجید اور حدیث شریف سے زیادہ تفہیم القرآن اور رسائل ومسائل پڑھتے ہو، تمھاری کتابیں صرف ایک موضوع پر چھپتی ہیں، تمھارے مدارس کی اہم چیزیں تمھاری شخصیات کے نام معنون ہیں، تم زبانی طور نہ سہی عملی طور پر تفہیم، الجہاد اور پردہ کو کتب حدیث پر فوقیت دیتے ہو، تم نے کتاب وسنت کے حاملین سے ہمیشہ اعراض کیا ہے، روافض سے قریب رہے، انکا تقرب حاصل کرنے کے لیے "خلافت وملوکیت" لکھی، تمھاری نئی نسل صرف گالیوں کی زبان جانتی ہے، تمھاری جماعت کا ایک بڑا حلقہ انکار سنت میں پوری طرح ملوث ہوچکا ہے، یاد رکھو انکار، تشکیک اور استخفاف کی راہ پر چل کر صرف گمراہ ہوگے اور نادان امت کی گمراہی کا سبب بنتے رہو گے، تم جس راہ پر چل رہے ہو یہ راہ بغض، عداوت، نفرت، شدت پسندی، انتہا پسندی اور دین کے چہرے کو مسخ کرنے کی راہ ہے، جو تمھیں برباد کرکے چھوڑے گی، تباہ کردے گی، ایک بار سرجوڑ کر بیٹھو، اپنے افکار و عقائد پر سچے دل سے غور کرو، اگر پھر بھی بات نہ بنے، مذاکرات کرلو، تحریری مباحثے کرلو، ممکن ہے اللہ تعالی تمھارے لیے حق کی تفہیم کے دروازے وا کردے. وما ذلك على الله بعزيز. ہمیشہ یہ دعا پڑھتے رہنا چاہیے۔
اللهم أرني الحق حقاً وارزقني إتباعه ، وأرني الباطل باطلاً وارزقني اجتنابه.
============================================
اس سے بڑی غیر منصفانہ بات اور کیا ہو سکتی ہے جب خلافت و اقتدار، حکومت و سیادت،، ایمان و عقیدے کی اصل روح سمجھی جانے لگے اور حکومت الہیہ، خلافت علی منہاج النبوۃ کے نام پر جمہوری سیاسیات کو اسلامی انقلاب کا نام دیا جانے لگے اور یہی ان کا نصب العین ٹھہرے جیسا کہ مولانا مودودی اپنے رفقاء کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں '' جو شخص بھی اس جماعت سے وابستہ ہے خواہ رکن کی حیثیت سے ہو یا کارکن اور متفق کی حیثیت سے وابستہ ہو اسے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کا اصل مقصد دین حق کو مکمل طور پر خدا کی زمین پر غالب کرنا ہے، اگر ہم سیاسی کام بھی کر تے ہیں تو اقتدار حاصل کرنے یا دوسری سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہیں '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ مولانا صاحب آخر کس خدائی دین کے غلبے کی بات کررہے ہیں اور وہ کن رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے تھے جو غلبہ دین کے لیے مانع تھی،،، ظاہر ہے مولانا کی بیشتر کتابیں اور لیٹریچرس خود گواہ ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ خمینیت، رافضیت اور خارجی مکتب فکر کو ترجیح دی اور ان کے دین فاسد کو مکمل دین تصور کیا، جیسا کہ مولانا کی بدنام زمانہ کتاب" خلافت وملوکیت " سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جسے شیعوں کے یہاں افضل الکتاب کا درجہ حاصل ہے اور اسے ایران کے سرکاری اسکولوں میں بطور نصاب پڑھایا بھی جاتا ہے، اس دین کے لیے مولانا کی بے لوث خدمات کو شیعوں نے جس انداز سے سراہا ہے اس کی مثال دوسرے سنی مفکرین میں بہت کم ملتی ہے،،،، باوجود اس کے،،،،،،،،،، تعجب ہوتا ہے جب کوئی قابل شخص اہل توحید سے پوچھتا ہے کہ آپ کو خلافت اور اسلامی حکومت والے عقیدے سے الرجی کیوں ہے؟؟؟؟ یہ سوال کوئی اور نہی بلکہ تحریکات اسلامی کے مشہور عالم دین استاذ گرامی جناب مولانا طاہر مدنی صاحب کرتے ہیں، کہتے ہیں "آپ جمہوریت کی بات کیجئے، سیکولرازم کی بات کیجئے، سرمایہ دارانہ نظام کی بات کیجئے، ملوکیت کی بات کیجئے،،، وغیرہ پیٹ میں کوئی مروڑ نہیں ہوگا،،،، لیکن اگر آپ نے اسلامی حکومت اور خلافت کی بات کی اسلامی سیاست اور اسلامی قانون کی بات کی،،،،،، تو خیر نہیں " ہمیں اس سے کوئی اعتراض نہیں! ہے ہاں البتہ اتنا بتا دیں کہ آپ خلافت علی منہاج النبوۃ کے بلند وبانگ نعرے سے کس طرز خلافت کی بات کرتے ہیں، اسلامی سیاست اور اسلامی قانون کے نام سے کس حکومت الہیہ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، کیا؟؟؟؟؟؟،، خلافت علی منہاج النبوۃ کے نام پر اس خلافت کو جسے داعشیوں نے عراق وشام میں جبرا مظلوم عوام پر تھوپا، خمینی کے غنڈوں نے اسلامی انقلاب کے نام پر ظالمانہ شیعہ جمہوری نظام کو ایران کے سنی عوام پر تھوپا، ایران کے پالتو کتے حوثی باغیوں نے یمن میں غاصبانہ قبضہ کر کے یمنی عوام پر ملعون نظام خمینی کو مسلط کیا جہاں سے وہ مسلسل حرمین شریفین کو باقاعدہ ٹارگیٹ کرتے چلے ارہے ہیں، مصر کے اخوانیوں نے جمہوری طرز پر بیلٹ پیپرز کے سہارے اقتدار میں آکر اپنے مکروہ عزائم کو مصری عوام پر تھوپا، مرسی صاحب کو ایسی کیا جلدی پڑی تھی کہ بار بار ایران کا دورہ کرنے لگے خمینی اور اس کے گرگے پھولے نہ سماتے تھے اور باقاعدہ ایران آنے کی دعوت دے دی، مرسی صاحب اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ایران کے ستر سے زائد اعلی افسران کو مصر میں داخلے کی اجازت دے دی،،،،،،،، ظاہر بات ہے یہ سب کوئی اتفاقیہ نہیں ہو سکتا،،،،،،، ###___از قلم ،،، محمد رئیس السلفی، بنارس
===========================================
سعودیہ سے عناد کیوں؟
شیخ عبدالمعید عبدالجليل مدنی
مدیر مجلہ الاحسان، دہلی.
یہودیت ،مجوسیت اور نصرانییت کےبنائے، پھیلائے پروپیگنڈوں، خبروں اور ملمع سازیوں کو انڈیا میں سید سلمان ندوی،خالد سیف اللہ رحمانی،پروفیسر محسن عثمانی ،مولانا عنایت اللہ سبحانی،رضی الاسلام ندوی،رفیق احمد رئیس سلفی اور اب مولانا طاہر مدنی فروغ دے رہے ہیں ۔ ان پروپیگنڈوں کو سلمان ندوی اور سارے سرپھرے تحریکی، عقیدے کے درجے میں رکھتے ہیں۔اور لطف یہ ہے کہ سارے کے سارے سعودی عنایتوں سے مستفید ہیں یا پلے ہوئے ہیں۔یہ کیسی بے غیرتی ہے کہ تحریکیت،مادر خارجیت،رافضت اورعلمانیت کی اظہر من الشمس کفریات انہیں نظر نہیں آتیں ۔یہ ان کی مطلق تائید کرتےہیں اور سعودی دشمنی میں اپنے دین و ایمان کے ضائع ہو جانے سے بھی بے خبر ہو جاتے ہیں۔
آخر یہ کس اخلاق،ذہنیت اور کردار کے لوگ ہیں۔یہ ان کا تعصب ہے، منہجی بے خبری ہے، دین سے لاتعلقی ہے یا شخصی ہیکڑی ہے. تاریخ سے بے خبری ہے، پھکڑ پن یا حسدہے، آباء واجداد کی پرانی روش کا اعادہ ہے، یا سنہرا خواب ہے جسے آنکھ کھول کر دن میں دیکھنے کی عادت، جس کی لت مودودی تحریروں سے پڑ گئی ہے۔
سعودی عرب کفر، الحاد، شرک، بدعات، اباحییت اور ہر طرح کے فساد و بگاڑ میں ایک الگ ڈھنگ کا ملک تھا اور ہے۔ خلافت راشدہ کے درجے میں وہ نہ کبھی تھا نہ ہے۔ تمام خرابیوں کے باوجود جو حقیقت میں اس کے ہیں یا ہو سکتی ہیں،بحیثیت مجموعی سعودی حکومت ،آل سعود،سعودی نظام ،سعودی علماء اور سعودی عوام دنیا کی تمام حکومتوں ،حکمرانوں ، علماءاور عوام سے بدرجہا بہتر ہیں۔سعودی حکومت آل سعود ،علماء اور عوام کی خدمات دنیا کی ساری جماعتوں اداروں اور علماء وعوام کی خدمات پر بھاری ہیں ۔بلکہ سب ان کے سائے ہیں خصوصا ندوی وسارے عالم کے تحریکی اور انکے ادارے۔
سعودی عرب ہمیشہ تمام مسلمانوں کے غم ومسرت میں مجملا وتفصیلا دامے درمے سخنے قدمے شریک رہا۔لیکن سمجھدار اہلحدیثوں کے سوا ہمیشہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا اور اکثر نے اسکو چھوڑ کر کافروں، رافضیوں اور خارجیوں کا ساتھ دیا ۔اورآج کھل کر کہہ دیتا ہوں جس وقت سارے صوفی اور تحریکی سعودی عرب کے ساتھ تھے سب مطلب برآری کے لئے تھے، منافقت کرتے تھے اور اس کی جڑیں کھودتے تھے. آج ان کی اولاد کا رویہ اسکی دلیل ہے۔
سعودی عرب کا اپنی کار کردگی کے سبب مسلمانوں پر جو دینی حق بنتا تھا اسے لکھنئو کے سید زادے اور منصورہ کے سید لیڈر نے بھی نہیں ادا کیا ۔اندر کچھ باہر کچھ پر عامل تھے، اسی لئے آج ان کی اولاد مجوسیت اور خارجیت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔بزدل اور دنیا دار ہیں ۔ورنہ کالے جھنڈے اور کالی فوج کے ساتھ جا نکلیں ۔جہالت اور بے ضمیری کے ماحول میں جینے والے اور خیرات کھانے والے کیا جانیں موقف اور عقیدہ کیا ہے۔
سعودی عرب کی حمایت اور مدافعت کرنے والے صرف اس لئے انکے حق میں لکھتے اور بولتے ہیں کہ حق کی حمایت اور ظلم کے خلاف کھڑا ہونا دینی فریضہ ہے۔۔عقیدۃ ومسلکا وہ ہمارے اپنے ہیں ۔ہمارا ان کا منہج ایک ہے۔ہمارا علمی ودینی قبلہ وہی ہے ۔وہ مظلوم ہیں بیشتر ان کے خلاف لکھنے والے جاہل بھی ہیں ظالم بھی ہیں اور گمراہ بھی ہیں۔دشمنوں کے پروپگنڈوں پر جیتے ہیں علمانیت، مجوسیت، خارجیت ،خارجیت کی ماں تحریکیت،صوفیت اورقبوریت کی گندکی اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
جب تک سعودی عرب عقیدہ ومنہج میں درست ہے اس دور میں ہر مسلمان پر اس کی حما یت واجب ہے۔ جب منہج سلف چھوڑ دے گا ظالم بن جائے گا ہماری تائید ختم ہوجائے گی۔ظالموں، دشمنوں، جاہلوں اور بے ضمیر وں کے چیخنے چلانے کی کوئی وقعت نہیں ۔یہ اپنی عاقبت برباد کرتے رہیں۔ادھر بھی ادھر کی گابھن اور منافقانہ جاہلانہ تحریروں کا تماشا بھی قابل دید ہے ۔منہج اور موقف کی کسوٹی پر سب ننگے ہو جاتے ہیں۔
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق