سلفیت حقیقت کے آئینے میں!
✒بقلم : د/اجمل منظور المدنی
(وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی)
الحمد للہ رب العالمین - والصلاۃ والسلام علی رسولہ الصادق الامین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، وبعد:
🔴 سلفیت کی تعریف :
سلفیت کی لغوی تعریف: علامہ ابن منظور نے اپنی مشہور لغت کی کتاب میں کہا: "والسلف من تقدمك من آبائك وذوى قرابتك الذين هم فوقك فى السن والفضل ومنه قول الرسول صلى الله عليه وسلم لابنته فاطمة الزهراء رضى الله عنها "فإنه نعم السلف أنا لك" رواه مسلم.
ترجمہ: سلف ان آباء واجداد اور رشتے داروں کو کہتے ہیں جو مقام ومرتبہ میں اونچے ہوں اور پہلے گزر چکے ہوں، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: میں تمہارے لئے بہترین سلف ہوں۔۔۔
سلفیت کی اصطلاحی تعریف:
علامہ قلشانی نے کہا: السلف الصالح، وهو الصدر الأول الراسخون فى العلم، المهتدون بهدي النبى صلى الله عليه وسلم، الحافظون لسنته، اختارهم الله تعالى لصحبة نبيه، وانتخبهم لإقامة دينه، ورضيهم أئمة للأمة، وجاهدوا فى سبيل الله حق جهاده، وأفرغوا فى نصح الأمة ونفعهم، وبذلوا فى مرضاة الله أنفسهم. قال تعالى: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْه} (التوبة:الآية100)
مفہوم: جب سلف صالح کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ صحابہ کی جماعت ہوتی ہے جنہیں اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کی صحبت کیلئے چنا تھا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرکے اور دین کی خدمت کرکے حق ادا کردیا اور اللہ ان سے راضی ہوا۔۔
علامہ سمعانی (ت 562) نے کہا: "السلفي؛ بفتح السين واللام وفي آخرها فاء: هذه النسبة إلى السلف، وانتحال مذاهبهم على ما سمعت منهم" کتاب الأنساب (3/273)
مفہوم: سلفی کی نسبت سلف (صحابہ) کی طرف ہے، اور انہیں سے سنے گئے مذہب کے مطابق چلنے کو کہتے ہیں۔
علامہ ذہبی نے حافظ احمد بن محمد جو ابو طاھر سلفی سے معروف ہیں، کے بارے میں لکھتے ہیں: "السلفي بفتحتين وهو من كان على مذهب السلف" سير أعلام النبلاء (21/6).
مفہوم: سلفی اس شخص کو کہتے ہیں جو سلف کے مذھب پر ہو۔
سو سلفیت کہتے ہیں سلف صالح کے فہم کے مطابق کتاب وسنت کی اتباع کرنا۔
یہی وجہ ہے سلفیت کے جانثار کسی امتی کی تقلید نہیں کرتے، سارے ائمہ، محدثین، علماء اور خدام دین کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انکی قدر کرتے ہیں اور دین و شریعت کو صحابہ کے عمل کی روشنی میں جانچتے ہیں۔۔
🔴 سلفیت کی نسبت اور اسکا مقام:
سلف صالحین صحابہ کی طرف نسبت کرنا فخر اور شرف کی بات ہے، یہ ایک ٹائٹل ہے جو مدح کے طور پر بولا جاتا ہے اہل سنت کے ان لوگوں پر جو کسی امتی کی تقلید نہ کرکے کتا وسنت پر سلف صالح کے فہم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اہل الحدیث، اہل الاتباع، اہل الاثر، اہل الجماعہ اور اہل السنہ مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے۔
علامہ ذہبی نے کہا : "فالذي يحتاج إليه الحافظ أن يكون تقيا ذكيا نحويا لغويا زكيا حييا سلفيا"سیر اعلام النبلاء: (13/380)
ترجمہ: حافظ(احادیث کا حافظ) اسی کو کہیں گے جو متقی، ہوشیار، نحوی، لغوی، پاکباز، باحیاء اور سلفی ہو۔
شيخ الإسلام ابن تيميه ـ رحمه الله ـ نے سلف کی طرف نسبت کرنے پر اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ولا عيب على من أظهر مذهب السلف وانتسب إليه واعتزى إليه، بل يجب قبول ذلك منه بالاتفاق؛ فإن مذهب السلف لا يكون إلا حقاً، فإن كان موافقاً له باطناً وظاهراً، فهو بمنزلة المؤمن الذي هو على الحق باطناً وظاهراً، وإن كان موافقاً له في الظاهر فقط دون الباطن فهو بمنزلة المنافق ، فتقبل منه علانيته وتوكل سريرته إلى الله، فإنا لم نؤمر أن ننقب عن قلوب الناس ولا نشق بطونهم).
مجموع الفتاوی: (1/149)
مفہوم: جو سلف کی طرف نسبت کرکے اس پر فخر کرے اس میں کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ اسے بالاتفاق قبول کرنا چاہئیے، کیونکہ سلف کا مذہب ہی حق پر ہے، اگر وہ اپنی نسبت میں ظاہر وباطن ہر لحاظ سے موافق ہوگا تو وہ مومن ہوگا بصورت دیگر اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
فتاوى دائمہ کمیٹی فتوی نمبر {1361} {1/165} پر سوال کیا گیا سلفیت کی نسبت کے تعلق سے تو اسکا یہ جواب تھا:
ج : السلفية نسبة إلى السلف والسلف هم صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم وأئمة الهدى من أهل القرون الثلاثة الأولى {رضي الله عنهم} الذين شهد لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخير في قوله: {خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يجئ أقوام تسبق شهادة أحدهم يمينه ويمينه شهادته} رواه الإمام أحمد في مسنده والبخاري ومسلم، والسلفيون جمع سلفي نسبة إلى السلف، وقد تقدم معناه وهم الذين ساروا على منهاج السلف من اتباع الكتاب والسنة والدعوة إليهما والعمل بهما فكانوا بذلك أهل السنة والجماعة. وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم".
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء
عضو:عبدالله بن قعود، عضو:عبدالله بن غديان، نائب رئيس اللجنة:عبدالرزاق عفيفي،
الرئيس:عبدالعزيز بن باز
مفہوم: سلفیت کہتے ہیں سلف صالح صحابہ کرام کی اپنی نسبت کرنے کو، چنانچہ سلفی وہی ہوتا ہے جو منہج سلف کے مطابق کتاب وسنت کی پیروی کرے، اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائے، اور ایسے ہی لوگ اہل سنت والجماعت ہیں۔
محدث عصر علامہ البانی - رحمه الله۔ فرماتے ہیں :
(وأما الذي ينتسب إلى السلف الصالح، فإنه ينتسب إلى العصمة ـ على وجه العموم ـ وقد ذكر النبي صلى الله عليه وسلم من علامات الفرقة الناجية أنها تتمسك بما كان عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وما كان عليه أصحابه . فمن تمسك به كان يقيناً على هدى من ربه ... ولا شك أن التسمية الواضحة الجلية المميزة البينة هي أن نقول : أنا مسلم على الكتاب والسنة وعلى منهج سلفنا الصالح، وهي أن تقول باختصار : {أنا سلفي} " . [مجلة الأصالة العدد التاسع ص 86 ـ87 ]
مفہوم: جو اپنی نسبت سلف صالح کی طرف کرتا ہے گویا وہ عمومی طور پر عصمت کی طرف اپنی نسبت کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ کی کی پہچان بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ عمل پیرا ہیں، چنانچہ جو اس منہج پر چلے گا یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہوگا۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مسلمان کہے کہ میں منہج سلف کے مطابق کتاب وسنت پر عمل کرنے والا ایک مسلمان ہوں جسے اختصار میں وہ خود کو سلفی بھی کہہ سکتا ہے۔
🔴 سلفیت علم وعلماء کی روشنی میں:
سلفی اپنا وقت قرآن وحدیث کے سمجھنے میں لگاتے ہیں، علماء ومشایخ کی مجلسوں میں بیٹھ کر علم حاصل کرتے ہیں، ائمہ ومحدثین کی علمی کاوشوں سے مستفید ہوتے ہیں، وہ صرف کتابوں کے مطالعہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتے، سلفی علماء ومشائخ اور ائمہ ومحدثین کا احترام کرتے ہیں، انکی اچھائیوں کو پھیلاتے ہیں اور انکی غلطیوں کو چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ وہ انہیں معصوم نہیں سمجھتے۔۔
🔴سلفیت اور فتوی:
سلفی ہر مسئلے میں فتوی دینے سے گریز کرتا ہے، کتاب وسنت کے صریح نصوص کی روشنی میں فتوی دے گا، بصورت دیگر اہل اجتہاد اور اپنے سے بڑے عالم کی طرف رہنمائی کردیتا ہے جس طرح سلف صالحین صحابہ کرام کرتے تھے۔
🔴 سلفیت اور اجتہاد:
اجتہاد اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر ایک بڑی نعمت ہے، اسی وجہ سے پیش آمدہ مسائل میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے جن کے تعلق سے کتاب وسنت کے اندر صریح نص نہیں ہوتا، تو ایسی صورت میں ایک مجتہد ہی اپنے علمی اجتہاد اور قیاس سے مسئلے کو حل کرتا ہے۔ لہذا اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کیلئے کھلا ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ حدیث ہے: "إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها"۔
الحديث صحيح أخرجه أبو داود والحاكم والبيهقي.
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی ہر صدی کے شروع میں ایسے شخص کو ضرور بھیجے گا جو اسکے دین کی تجدید کرے گا۔
🔴 سلفیت اور نقل اخبار:
ارشاد باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْماً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ} (الحجرات:6)
ترجمہ: اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہو جاؤ۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں سلفی پہلے ہر خبر کی تحقیق کرتے ہیں، پھر اس پر کوئی حکم لگاتے ہیں، محض کسی کے تعلق سے خبر سن کر ہی اس پر اس پر بھروسہ نہیں کرلیتے، اور نہ ہی یہ کسی افواہ اور پروپیگنڈے کے پیچھے یہ بھاگتے ہیں۔
🔴 سلفیت اور تکفیر:
سلفی مطلق طور پر تکفیر کے منکر بھی نہیں ہیں اور نہ ہی ہر گناہ پر ہر کسی کی تکفیر کرتے ہیں، اور یہ بھی نہیں کہتے کہ تکفیر معین ممکن نہیں ہے، بلکہ اگر کسی کے اندر تکفیر کے شروط پائے جائیں اور وہ موانع سے خالی ہو تو اسکی تکفیر کے قائل ہیں۔
تکفیر کے شرائط:
اسے پتہ ہو کہ یہ عمل کفریہ ہے۔
اس نے جان بوجھ کر کفریہ عمل کیا ہو یا کہا ہو۔
اپنے اختیار سے کیا ہو مجبور ہوکر نہ کیا ہو۔
تکفیر کے موانع:
اسے معلوم نہ ہو کہ یہ کفر ہے۔
اس نے وہ بات تاویل کرکے کہی ہو، کفر کا عقیدہ نہ ہو۔
اس نے وہ بات مجبور ہوکر کہی ہو یا کیا ہو۔
اس نے اس کفریہ کام کو غلطی سے کیا ہو۔
🔴 سلفیت اور حاکم وقت:
سلفی حاکم وقت کے ساتھ اسی سلوک اور برتاؤ کے قائل ہیں جس طرح کتاب وسنت میں انکے ساتھ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ جب تک حاکم صریح کفر کا ارتکاب نہ کرے وہ اسکے خلاف خروج کے قائل نہیں ہیں، اور خروج کے اسباب موجود ہونے کے باوجود بھی اسی صورت میں خروج کے قائل ہیں جب حاکم کے مقابلے زیادہ قوت کے مالک ہوں تاکہ موجودہ فساد کے مقابلے زیادہ فساد کا اندیشہ نہ رہے۔
🔴 سلفیت اور ولاء وبراء:
سلفی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف دین کی خاطر کرتے ہیں، وہ کسی جماعت، قوم یا فرد کو دین سے فوق تر نہیں سمجھتے۔ وہ ہر مومن سے اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں اور ہر کافر سے اللہ کیلئے بغض رکھتے ہیں۔ حق اسی کو سمجھتے ہیں جس پر قال اللہ اور قال الرسول کی مہر ہوتی ہے۔
🔴 سلفیت اور شرک وبدعت:
سلفی معاصی اور کبائر سے بالاتر نہیں البتہ سب سے زیادہ شرک وبدعات سے دور رہتے ہیں۔ سلفی اسی لئے بدعتی سے بھی دور رہتے ہیں:
1. اسے سبق سکھانے کیلئے اور دوسرے کو اس سے عبرت پکڑنے کی خاطر۔
2. اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی صورت میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
🔴 سلفیت اور گروہ بندی:
سلفی کسی طرح کی گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں چاہے وہ فرقہ وارانہ اور مسلکی گروہ بندی ہو یا سیاسی اور سماجی گروہ بندی ہو، کیونکہ گروہ بندی دنیا وآخرت سب کیلئے تباہ کن ہے، کیونکہ گروہ بندی مشرکوں کا اعمال ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ * مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ} (الروم 31 :32 )
ترجمہ: اور شرک کرنے والوں سے نہ ہو جائو۔ان لوگوں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی گروہ ہوگئے، ہر گروہ اسی پر جو ان کے پاس ہے، خوش ہیں۔
مزید ارشاد فرمایا: {إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ} (الأنعام:159)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر لیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ انھیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
اسلام ہمیں ایک عقیدے ، ایک منہج اور ایک امت کے ساتھ اتحاد کرنے کی دعوت دیتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ} (الانبياء:92)
ترجمہ: بے شک یہ ہے تمھاری امت جو ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمھارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا} (آل عمران:الآية103).
ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔
شیخ ابو بکر زید کہتے ہیں : "إنَّ إنشاء أي حزب في الإسلام يخالفه بأمر كلي أو بجزئيات لا يجوز، ويترتب عليه عدم جواز الانتماء إليه، ولنعتزل تلك الفرق كلها، وعليه فلا يجوز الانصهار مع راية أخرى تخالف راية التوحيد بأي وجهٍ كان من وسيلة أو غايـة. ومعاذ الله أن تكون الدعوة على سنن الإسلام مِظَلَّة يدخل تحتها أي من أهل البدع والأهواء، فيُغَض النَّظر عن بدعهم وأهوائهم على حساب الدعوة" [حكم الانتماء 153] .
مفہوم: اسلام کے اندر پارٹی بنانا یا اسکی طرف منسعب ہونا کسی طرح جائز نہیں، توحید کا جھنڈا ہمارے لئے کافی ہے، اللہ کی پناہ ایسی پارٹی کی طرف دعوت دینے سے جس کے اندر اہل بدعت کے سارے لوگ موجود ہوں۔۔
🔴 سلفیت اور خفیہ تنظیم:
اخوانیوں کی طرح سلفیت خفیہ اور پراسرار تنظیموں کا قائل نہیں ہے، سلفیوں کی دعوت روز روشن کی طرح واضح ہے، انکے یہاں کوئی پراسراریت نہیں ہے، منہج سلف کے مطابق کتاب وسنت کی دعوت دیتے ہیں، منبر ومحراب کو اپنا وسیلہ بناتے ہیں۔ سماج کا ہر فرد انکی دعوت میں شامل ہوتا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے وصیت کیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعبد الله ولا تشرك به شيئاً، وأقم الصلاة…وعليك بالعلانية وإياك والسر" رواه ابن أبى عاصم فى السنة بإسناد جيد.
ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو۔۔۔۔ کھلے پن کو لازم پکڑو اور رازداری سے بچو۔
سیدنا عمر بن عبد العزيز – رحمه الله۔ نے کہا: "إذا رأيت قوماً يتناجون فى دينهم بشيء دون العامة فاعلم أنهم على تأسيس ضلالة" رواه أحمد فى الزهد.
ترجمہ: جب کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ لوگوں کو چھوڑ کر دین کے معاملے میں تنہائی میں بیٹھ کر سرگوشی کر رہے ہیں تو جان لو یہ لوگ گمراہی کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔
🔴 سلفیت اور بیعت:
اسلام کے اندر بیعت یا تو حاکم وقت کیلئے ہے یا جہاد کے وقت شہادت یا فتح کیلئے۔۔ اسکے علاوہ تیسری کوئی بیعت نہیں ہے، آیات واحادیث میں انہیں دونوں کا تذکرہ ہے۔۔
🔴 سلفیت اور جہاد:
سلفی جہاد کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ اسے اسلام کی سربلندی کی نشان مانتے ہیں، البتہ حاکم وقت کے ماتحت نہ کہ مجہول جھنڈے کے تحت۔ سلفی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہاد قیامت تک باقی رہے گا اسکا حکم کبھی ختم نہیں ہوگا۔
🔴 سلفیت اور نفاذ شریعت :
سلفیت کا یہ عقیدہ ہے کہ نفاذ شریعت جس طرح ہر فرد مسلم پر واجب ہے اسی طرح مسلم حاکم پر بھی واجب ہے۔ نفاذ شریعت کی آیتیں دونوں کیلئے عام ہیں، وہ صرف حکام کیلئے خاص نہیں ہیں۔
بلکہ ان آیتوں کا تعلق شخصی زندگی سے زیادہ متعلق ہے، شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله- فرماتے ہیں: "والإنسان متى حلل الحرام المجمع عليه، أو حرم الحلال المجمع عليه، أو بدل الشرع المجمع عليه، كان كافراً مرتداً، باتفاق الفقهاء، وفى مثل هذا نزل قوله على أحد القولين {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} (المائدة:الآية44) أى هو المستحل للحكم بغير ما أنزل الله".
مفہوم: ایک مسلمان جب حلال کردہ کسی چیز کو حرام اور حرام کردہ کسی چیز کو حلال کرتا ہے تو وہ مرتد ہوجاتا ہے، ایسے ہی پس منظر میں نفاذ شریعت والی آیت کا نزول ہوا تھا، یعنی وہ غیر شریعت کو حلال سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
وصل الله على نبينا محمد و على آله وسلم
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق