سیرت النبی میں منگھڑت واقعات کی حقیقت
بقلم: د/ اجمل منظور المدنی
محترم قارئینِ کرام!
بہت سے سیرت نگاروں نے کچھ واقعات بغیر تحقیق کیے لکھے، خطباء حضرات نے بیان کیے اور عوام میں پھیلا دیے مگر بہت ہی کم لوگوں نے حق و سچ بیان کرنے کی کوشش کی، اسی لئے آج تک وہ سارے من گھڑت واقعات اور کہانیاں کتابوں میں موجود ہیں اور لوگ انہیں حقیقت اور سچ سمجھ کر پڑھتے اور سنتے ہیں۔
مگر دین اسلام کے اندر اس کے لیے اصول اور ضابطے بنائے گئے ہیں اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ جب تک اس خبر کی تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس پر اعتماد نہ کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ) ترجمہ : اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہو جاؤ۔ [الحجرات: 6]۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو، جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو، ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے۔
اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو اس لیے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو۔
قصے، کہانیاں اور داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہی ہیں؛ کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قِصہ سننا اور سنانا ہمیشہ سے انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر ملک اور قوم میں موجود رہا ہے۔
یہ سلسلہ تاریخ اسلام میں بھی جاری رہا، اور مختلف مقاصد کے حصول میں مختلف افکار ونظریات کے حاملین نے سیرت وحدیث کے اندر من گھڑت واقعات اور کہانیوں کو بھر دیا، جن سے انکا گھناؤنا مقصد سیرت نبوی کو داغدار کرنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو متنازعہ فیہ بنانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو مشکوک بنانا، انکی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کرنا تھا نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو دھڑوں میں اس طرح دکھانا جیسے کہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے سخت دشمن ہوں۔
اس خبیث کردار کو سب سے زیادہ روافض اور خوارج نے ادا کیا ہے، جنہیں ہم درج ذیل چند گروہوں میں منقسم کرسکتے ہیں جنہوں نے سیرت النبی اور احادیث مبارکہ کو شعوری اور لا شعوری طور پر داغدار کرنے کی کوشش کی ہے :
-زَنادِقہ:
ان کا مقصد اُمت میں رطب ویابس پھیلا کر شریعت کو مسخ کرنا ہے۔
- فرقہٴ نیچریہ:
اُن کے گمراہ کُن عقائد انہیں کے واسطے امت میں پھیلے ہیں، دراصل یہ فرقہ نصوصِ شرعیہ میں تحریف (تبدیلی) لفظی ومعنوی کا مرتکب رہا ہے۔
- موٴیدینِ مذاہب:
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں گھڑیں، تاریخ شاہد ہے کہ بعض خوارج اور روافض نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور رائے کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں ۔ اہل سوء اور بدعتی اپنی بہت سی مُحدَثَات (دین میں نئی باتیں) اور بدعات کو سند جواز فراہم کیا، اور اپنی اِختراعات کے ثبوت میں، من گھڑت اورساقط الاعتبار روایتوں کا سہارا لیا۔
- اصلاح پسند اَفراد:
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب وترہیب کی احادیث گھڑیں اور سیرت النبی سے متعلق جھوٹی کہانیاں لوگوں میں پھیلائی ہیں۔
- طبقہٴ جہلاء:
یہ قسم اُن لوگوں کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہر اَمرِخیر،اقوال زَرِیں وغیرہ کا انتساب، جائز سمجھتے ہیں؛حالانکہ معتبر سند کے بغیر اس طرح انتساب کرنا ہر گز جائز نہیں۔
- اہل غلو:
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جو عقیدت ومحبت میں اِفراط وغُلُوّ کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اہل بیت، خلفائے راشدین، ائمہ کرام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے باطل اور بے اصل مضامین مشہور کردیتے ہیں۔
- واعظین:
یہ طبقہ ان قصہ گَو واعظین کا ہے جو جعلی غرائبِ زمانہ سُنا کر عوام سے دادِ تحسین وُصول کرتے ہیں۔
ایسے منگھڑت واقعات اور کہانیوں سے جہاں ایک طرف حدیث کی کتابیں بھری ہوئی ہیں تو دوسری طرف تاریخ اسلام اور سیرت النبی کی کتابیں بھی بھری پڑی ہیں لہذا ہمیں ایسے موقع پر ان کی چھان بین کرنا اور سند اور متن ہر اعتبار سے ان کی تحقیق کرنا واجب ہے تاکہ سیرت النبی جھوٹ اور پروپیگنڈوں سے خالی ہو۔
نمونے کے طور پر سیرت النبی سے ایک واقعہ نقل کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ سیرت النبی کے اندر جھوٹی روایتوں اور من گھڑت کہانیوں سے کس قدر سیرت النبی پر اثر پڑتا ہے اور آپ کے صحابہ کے روشن کردار کو کس طرح داغدار کیا جاتا ہے:
کیا ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا؟
سیرت کی کتابوں ميں منقول ہے جيسا كہ الرحيق المختوم ميں بهى لكها ہے كہ ہند بنت عتبہ نے حمزه رضى الله عنہ كا كليجہ چاک كرديا اور منہ ميں ڈال كرچبايا اور نگلنا چاہا ليكن نگل نہ سكى تو تهوک ديا، اور كٹے ہوئے كانوں اور ناكوں كا پازيب اور ہار بنايا۔
روايت پر تبصره:
سچ یہ ھے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روایت چند کتب احادیث، تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ھے مگر اسکی سند منقطع ھے۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ھے۔
ابن كثير رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البدايہ والنہايہ ميں بغير سند كے اسے نقل كيا ہے جو كہ ضعيف ہے۔
ابن ہشام نے اسے منقطع سند كے ساتھ نقل كيا ہے اور يہ بهى ضعيف ہے۔
واقدى كى ايک روايت سخت ضعيف ہے۔
دوسرے يہ كہ حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اسکا متن منکر ھے۔
سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں:
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ ملکر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی الله عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشیؓ، جناب جبیر بن مطعم ؓکے غلام تھے۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہؓ میں فوت ہوئے۔ آپؓ نے حضرت وحشیؓ سے کہا کہ حمزہؓ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہؓ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں۔
اسی بات کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے۔
اب یہ بھی دیکھیں کہ سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ جب خدمت رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول كرتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة)۔
لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ ہندؓ کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے فرمایا۔
حالانکہ سیدہ ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا۔۔۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہوچکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہئے تھا ناں؟
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عم محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا۔ چہ معنی دارد؟
مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی مکرم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد سیدہ ہندہ کا عرض کرنا کہ :”یا رسول اللہ! آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں“۔ یہ تو الفاظ تھے سیدہ ہندہ کے۔ جواب میں سيد الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ ” اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے“. (یعنی سیدہ ہندہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی دوعالم قسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا: ”تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے، میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے“ یہ نہیں فرمایا، بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا۔ فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت وعقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہوسکے۔ امام بخاری نے یہاں عنوان قائم کیا ہے: ”باب ذكر ہند بنت عتبہ“. عن عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ: «وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ قَالَ: «لاَ أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ» صحيح بخارى : كتاب مناقب الانصار، باب ذكر هند بنت عتبہ ترجمہ: عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے“ پھر ہند نے کہا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہئے۔
- سيده ہنده نے رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم سے اسلام پر بيعت كيا۔
- بيعت كے دوران ايك شرط پر سوال بهى كيا۔
- اسكے بعد رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم سے اپنى محبت كا اظہار كيا۔
- اسكے بعد رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم نے ان سے اپنى محبت كا اظہار كيا۔
- پهر سيده ہنده نے رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم سے فتوى پوچها اور آپ نے اسكا جواب ديا۔
- گويا اسلام لانے كے بعد كہيں كسى طرح كى ناگوارى كا اظہار نہيں ہے بلكہ ايک دوسرے سے محبت كا اظہار ہے، پلس رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم نے انكے گهر كو دار الامن قرار ديا ۔
- حقيقت يہى ہے كہ سيدنا حمزه كى شہادت ميں سيده ہنده كا كوئى ہاتھ نہيں ہے ، يہ صرف رافضى شيعوں اور سبائيوں كا من گھڑت قصہ ہے۔ جو ہميشہ بنو اميہ كو بنو ہاشم كا دشمن بناكر دكهانے كى كوشش كرتے رہے ہيں تاكہ صحابہ كى ساكھ كمزور ہو اور كتاب وسنت كى بنياديں ہل جائيں ليكن كتاب وسنت كے متوالے جب تک زنده ہيں رافضي شیعوں اور دشمنان اسلام كے مذموم ارادوں كو پورا نہيں ہونے ديں گے۔
اسی معروف واقعے کے ضمن میں ایک اور کہانی گھڑی گئی ہے اور وہ درج ذیل ہے :
حمزه كے بدن كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا؟
ايک روايت ميں ہے كہ رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم نے پوچها كہ ہنده نے كچھ كهايا تها يا نہيں تو بتايا گيا كہ نہيں كها سكى ہے، تو آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: وه كها بهى نہيں سكتى تهى ، حمزه كے بدن كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا ۔
يہ مسند احمد (6/ 191) كے اندر ہے مگر روايت سخت ضعيف ہے۔ ابن كثير اور علامہ البانى نے اسے ضعيف كہا ہے۔
اسى روايت كے اندر ہے كہ آپ نے حمزه پر ستر نماز جنازه پڑهى جبكہ صحيح روايتوں سے ايک بهى ثابت نہيں ہے۔
اور اگر متن كے اعتبار سے ديكهيں تو آخر آپ يہ كيسے كہہ سكتے ہيں كہ انكے جسم كا كوئى حصہ جہنم ميں نہيں جاسكتا ، مطلب اس سے لازم آتاہے كہ ہنده جہنمى ہيں جبكہ وه اسلام لائى تهيں، اور ايک جليل القدر صحابيہ تهيں۔ يقينا اس ميں سبائى روافض كا ہاتھ ہے۔
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق