🇸🇦طائفه منصوره🇸🇦
💥دور حاضر میں آخر کہاں ہے؟💥
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
ٹکنالوجی اور سائنس کے اس پرتعیش دور میں قدم قدم پر فتنہ ہے۔ بے حیائی اور انارکی سے ماحول بھرا پڑا ہے۔ علمانیت، بددینی ، دین بیزاری، کج فکری اور بے راہ روی اپنے عروج پر ہے۔ تہذیبی تصادم کے اس خونخوار دور میں سارے رہنما اصول ومفاہیم الٹے جارہے ہیں۔ افواہوں اور پروپیگنڈے کے اس گوبلز زدہ میڈیائی زمانے میں حق کو باطل اور باطل کو ملمع سازی کرکے حق ثابت کیا جارہا ہے۔ ادیان وافکار، مذاہب ومشارب، احزاب وحرکات، طوائف وفرق اور گروہ وتنظیمات کا اتنا بھرمار ہے کہ تہتر فرقوں والی حدیث کا دراسہ اور اسکا انطباق اس وقت بائیں ہاتھ کا کھیل ہوچکا ہے۔
اسلام کتاب وسنت کے مجموعہ کانام ہے ، دونوں ایک ماخذ ہیں ، بحث واستدلال اور عمل میں ان دونوں میں تفریق ناجائز اور حرام ہے ، عبادات ، اخلاق ، عقائد ، معاملات ، معاشیات ، سیاسیات او ر بین اقوامی مسائل میں اکثر وبیشتر سنت نبی کے ذریعہ نوع انسانی کی قیامت تک وضعی قوانین کے مقابلہ میں سچی رہنمائی کی ضمانت اسلام دیتاہے ۔ رسول ﷺ وحی ونبوت کی زبان میں ارشاد فرماتے ہیں : ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما إن تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنتی ولن یتفرقا حتی یرد علی الحوض۔
سلفیت نے دور نبوت سے لیکر آج تک ہر مقام اور ہر موڑ پراسلام کے اس مجموعہ پر عمل کی دعوت دی ہے اور بے شمار داخلی اور خارجی گمراہ نظریات کے مقابلہ میں اسلام کی ٹھیٹھ اور سادہ تعلیمات اور اصول وضوابط کو اسلامی ڈھنگ سے پیش کیا ہے ۔ اس بنیاد پر بجا طورپر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عقل اور تفلسف کے گورکھ دھندوں میں دین اسلام کی سادگی جس حد تک محفوظ ہے وہ اللہ کی ضمانت کے بعد سلفیت کی صداقت وخلوص کا ثمرہ ہے۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کے ہر دور میں سلفیت نے اسلام کے مجموعہ کتا ب وسنت کی دعوت جس سادگی اوراعتدال کے ساتھ دی ہے وہ اسے”اسلام کا سچا نمائندہ “ کا تاریخی مقام عطاکرتاہے ، اعتقاد وعمل اور محبت وبغض میں افراط وتفریط کے موقع پر اعتدال کی روش اپنا ناسلفیت کا تاریخی موقف ہے ، اللہ تعالی کے فرمان (انزل الکتاب بالحق والمیزان) کے مطابق میزان عدل واعتدال بجاطور پر سلفیت کے ہاتھ میں ہے۔
تقریبا چوتھی صدی تک اسلام اپنی خالص شکل میں کتاب وسنت کی اساس پر باقی رہا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ مسلم حکمرانوں کے دینی جذبہ کی کمزوری اور ایرانی وہندوستانی، یونانی اور رومانی تہذیب وتمدن سے متاثر ہونے نیز علماءوصوفیاءکے یونانی علوم اور ملحدانہ تصوف کو سب کچھ سمجھ لینے کی بنا پر عام مسلمانوں میں بدعات وخرافات اور غیر اسلامی رسم ورواج راسخ ہوتا گیا اور اکبر کے دور تک یہ تاریکی اس قدر عام ہوگئی کہ اسلام کے بالمقابل ایک نیا دین ایجاد کرنے میں اسے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔گیارہویں صدی ہجری تک کتاب وسنت کی بنیاد پر جو اصلاحی کوششیں ہوتی رہیں انکا ایک عمومی فائدہ یہ تھا کہ حق کی صدا لوگوں کے کانوں میں پہونچتی رہی لیکن بدعات وخرافات کے طوفان کا رخ نہیں موڑا جاسکا۔ بارہویں صدی ہجری میں جب شیخ محمد بن عبد الوہاب اور امام محمد بن سعود نے جزیرہ عرب کے اندر کتاب وسنت پر مبنی ایک ہمہ گیر اصلاحی واسلامی انقلاب برپا کرکے خالص سلف کے منہج پر امارت قائم کی تو شرک وبدعات اور تقلید وتحزب کے پرکھچے اڑنے لگے ۔ پھر تو اس کے بعد جس طرح رفتہ رفتہ یہ انقلاب عام ہوتا رہا اور عوام کے دلوں میں جگہ بناتا رہا اسی قدر اسکے خلاف اتہامات اور الزمات کا طوفان بھی برپا کیا جانے لگا۔
ابن فیروز نامی رافضی ملعون کے ذریعے ترکی خلافت میں شکایت کرنے پر اس امارت شرعیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، پھر رہی سہی کسر مصر میں قائم ملحد محمد علی کی حکومت نے نکال دی۔ پھر تیسرے دور حکومت میں مکہ کے اندر بیٹھے احمد زینی دحلان جیسے شرک وبدعت کے بڑے بڑے ٹھیکیدار اور شرک وبدعت کی سرپرستی کرنے والی آل شریف کی حکومت نے اس شرعی امارت کے خلاف خوب پرچار کیا ، بر صغیر کے اہل بدعت وتقلید نے بھی اس پروپیگنڈے میں خوب حصہ لیا، مستشرقین اور مسیحی پادریوں نیز استعماری انگریز حکومتوں نے بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیا لیکن ان سب کے باوجود بقول الہی:(ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیراً) سب کچھ سننا پڑا اور (لا یضرهم من خذلهم) کے تحت کچھ نقصان نہ پہونچا سکے۔
طائفہ منصورہ کے اوصاف:
اس مضمون کے ذریعے میں نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ وہ طائفہ منصورہ جس کے ہمیشہ ہمیش باقی رہنے اور موجود ہونے کی گواہی رسول اکرم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے وہ آخر کہاں ہے ؟ اس پر آخر کن لوگوں کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ ان کے کیا اوصاف ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ( لاتزال طائفة من امتی ظاهرین علی الحق لایضرهم من خذلهم حتی یاتی امر الله وهم کذالک)
دلالت حدیث: لا تزال کا صیغہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ طائفہ اور گروہ ہمیشہ قائم رہے گا اور قیامت تک باقی رہے گا۔ طائفہ جو کہ نکرہ کا صیغہ ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کوئی ایک خاص منہج برقائم رہنے والا گروہ ہوگا۔ من امتی کے صیغے سے یہ واضح ہے کہ وہ کوئی بدعتی اور خارجی گروہ نہیں بلکہ اسکا تعلق امت محمدیہ سے جڑا ہوگا۔ظاہرین علی الحق یہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ وہ طائفہ باطل نہیں بلکہ حق پر قائم ہوگا۔ لا یضرہم من خذلہم کا جملہ یہ بتا رہا ہے کہ ہر زمانے میں اس پر مختلف الزامات لگاکر نیز اسکے خلاف پروپیگندے اور افواہوں کا طوفان قائم کرکے اسے بدنام کرنے کی سعی نامسعود کی جائے گی لیکن اس طائفہ منصورہ کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ آخری جملہ وہم کذلک یہ بتارہا ہے کہ وہ اپنے اسی نبوی منہج پر قیامت تک قائم رہیں گے ان کے منہج اور عمل میں کوئی تبدیلی قیامت تک نہیں آئے گی۔
تہتر فرقوںوالی حدیث کے آخری جملہ کی طرف صرف اشارہ کروں گا جس میں یہ تذکرہ ہے کہ صحابہ نے جب پوچھا کہ آخر ان میں جنتی کون ہوگا تو آپ نے فرمایا تھا : (ما انا عليه واصحابی) یعنی وہ گروہ جنتی ہوگا جو میرے اور میرے صحابہ کے منہج پر ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ صحابہ کا منہج کیا تھا ؟ ان کے پاس قرآن وحدیث کے علاوہ تیسرا ماخذ آخر کیا تھا؟ نیز قرآن کی آیت (فإن آمنوا بمثل آمنتم به فقد اهتدوا وإن تولوا فإنما هم فی شقاق) کے اندر صحابہ کرام کو ایمان لانے میں آخر آئیڈیل کیوں بنایا گیا ہے؟ ان کا ایمان کس بنیاد پر قائم تھا ؟ ان کے ایمان لانے کا معیار اور منہج آخر کتاب وسنت کے علاوہ کچھ اور تھا؟ ارشاد باری ہے: ( ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی ویتبع غیر سبیل المومنین نوله ما تولی ونصله جهنم وساءت مصیرا) اس آیت کے اندر مومنین سے مراد ظاہر ہے اول درجے میں صحابہ کرام ہی ہیں پھر ان کا وہ کونسا راستہ تھا جس سے انحراف کو جہنم کا راستہ بتایا گیا ہے؟ یہی چند سوالات ہیں جن کی روشنی میں موجودہ دور میں ہمیں یہ تلاشنا ہے کہ اس طائفہ منصورہ کا اطلاق کن لوگوں پر ہوسکتا ہے ؟
مذکورہ وضاحت سے یہ صاف ہوگیا کہ تمام باطنی، صوفی، رافضی، تحریکی، بدعتی اور تقلیدی فرق وطوائف سے ہٹ کر صرف کتاب وسنت پر مبنی صحابہ کرام کے منہج پر چلنے والے ہی اس خوش نصیب گروہ سے مراد ہوسکتے ہیں۔ اور سلفیوں کے علاوہ اس وقت کوئی نہیں ہوگا جو اپنے آپ کو کسی خاص فرقے سے نہ جوڑ تا ہو جن کے کندھوں پر تقلیدی وتحریکی اصول وقوانین کے بوجھ نہ پڑے ہوئے ہوں جن سے آزاد ہونا محال تو نہیں البتہ دشوار ضرور ہے۔
ریاستی پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو اس دور میں مملکت توحید سعودی عرب پر جس طرح افواہوں ، پروپیگنڈوں اور الزامات کا طوفان کھڑا کیا جارہا ہے وہ اپنے آپ میں ایک بے مثال نمونہ ہے۔ مغربی کفار بھی اس مملکت سے نالاں ہیں۔ برطانوی وزرائ، امریکی وزیر خارخہ ٹلرسن ، جرمن صدر انجیلا مرکل،سابق فرانسیسی صدر سرکوزی ، ہالینڈکی ریاست نیز مختلف الحاد وبددینی کے سرپرست یورپی تنظیم وحرکات برابر اس مظلوم توحید پرست مملکت پر بے جا الزامات لگاتے رہے ہیں۔ اسرائیلی یہود تو گریٹر اسرائیل بنانے کیلئے مدینہ منورہ کے حدود تک دعوی کئے بیٹھا ہے۔ ایرانی مجوس رافضی تو گریٹر صفوی ساسانی حکومت قائم کرنے کیلئے حرمین پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ یہودو روافض اس پر ایک طرح سے میڈیائی اور الیکٹرانک جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ لبنانی ، شامی اور عراقی تمام دروزی ، اسماعیلی اور باطنی فرقے مملکت کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کفار یہودونصاری اور منافقین شیعہ وروافض کے ساتھ ساتھ تحریک وتقلید کے رسیا کچھ کم ان کا ہاتھ نہیں بٹا رہے ہیں۔
امریکہ ویورپ اس لئے نالاں ہے کہ وہاں دینی آزادی نہیں ہے۔ وہاں الحاد وبے دینی ، کھلی بے حیائی اور استامبول ماڈل کا کوئی شہر نہیں ہے جہاں شراب خانوں کے ساتھ ساتھ طوائف خانوں کو سرکاری سرٹیفکٹ دئیے جاتے ہوںلیکن مسجدوں سے ذرا ہٹ کر۔ وہاں چوری اور زناکاری پر سخت شریعت کا پہرہ ہے ۔ طہران ، قم اور نجف جیسا کوئی شہر نہیں جہاں متعہ کے نام پر زنا ہو اور آج تک تاریخی ریکارڈ کے مطابق زنا کے ایشو میں کوئی پکڑا نہ جائے۔ کیس چلنا ، حد اورقصاص نافذ کرنا تو دور کی بات۔
ایرانی شیعہ اس لئے نالاں ہیں کہ وہاں انہیں متعہ کے نام پر زنا کرنے کی چھوٹ نہیں ہے۔ قتل حسین پر نوحہ وماتم کرکے مگرمچھ کے آنسو بہانے نیز صحابہ کرام کو گالی دینے کی آزادی نہیں ہے۔ وہاں فتنہ وفساد مچانے اور اہل سنت کو قتل کرکے ثواب کمانے کی اجازت نہیں ہے۔ اہل شرک وبدعت اس لئے نالاں ہیں کہ انہیں وہاں مسیحی میلاد منانے کی اجازت نہیں ہے۔دین کے نام پر شرک وبدعات کے مزارات بنانے اور عرس ومیلے لگانے کی چھوٹ نہیں ہے۔ حرمین کے مقامات مقدسہ کو دین کے نام پر تجارت کرنے کا موقعہ نہیں مل رہا ہے۔
اہل تقلید کو شکایت ہے کہ تقلید کی طرف نسبت کے باوجود بھی یہ صرف کتا ب وسنت کو اپنا دستور کیوں بنائے ہوئے ہیں۔ آخر یہ ہماری طرح اندھ بھکت اور جمود کا شکار کیوں نہیں ہیں۔ ہم سے دور اور اہل حدیثوں سے قربت کیوں ہے؟ سلفی کہہ کر تقلید کی نیّا کیوں ڈبو رہے ہیں؟ دعوت وتبلیغ کے نام پر جالیات کھول کر بہکی تقلیدی عوام کو کتاب وسنت کا راستہ کیوں دکھارہے ہیں؟
جماعتی اور اخوانی اس لئے نالاں ہیں نیز مملکت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں رافضی آلہ کار بنے ہوئے ہیں کہ آخر عرب بہاریہ میں یہ دوسرے کئی ملکوں کی طرح یہاں کیوں کامیابی نہیں مل پائی؟ جمہوریت اور حزبیت کا قیام آخر یہاں کیوں نہیں ؟ ہزاروں پارٹیاں آخر یہاں بن کر اس مملکت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے میں حصہ کیوں نہیں لے رہی ہیں؟ آخر اس نے یمن میں رافضی حوثیوں کو قلع قمع کرنے کیلئے کمر کیوں کس لیا؟عراق ، شام، لیبیا کی طرح تباہ ہونے سے آخر سعودی نے بحرین اور یمن کو کیوں بچانے آیا؟ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے راستے پر لانے اور مسلم ملکوں کی تباہی میں حصہ لینے کیلئے ابھارنے پر فتوی دینے والے ہمارے مغرب زدہ ماڈرن علماءومفکرین کے خلاف یہ ملک آخر کیوں ہے؟
میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ کفار ومشرکین اور ملحدین کو اگر چھوڑ دیا جائے توکیا رافضیوں کے رول ماڈل ملک ایران اور تقلیدیوںو تحریکیوں کے رول ماڈل ملک ترکی اور قطر کے مقابلے میں مملکت سعودی عرب شریعت پر عمل پیرا ہونے کے اعتبار سے کس چیز میں پیچھے ہے؟ نیز شریعت کی پاسداری تینوں میں سے کس کے یہاں مملکت توحید سے زیادہ ہوتی ہے؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر اسی مملکت کے پیچھے سب کے پڑے رہنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف کتاب وسنت پر عمل کرنے کی وجہ سے ، تقلید وتحریک کو لات مارنے کی وجہ سے، شرک وبدعت پر قد غن لگانے کی وجہ سے، رفض وتشیع کو دریا برد کرنے کی وجہ سے، الحاد وکفر کے نام ونشان مٹانے کی وجہ سے یہ سارے حملے اس پر ہورہے ہیں۔ بہر حال کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ مجھ جیسے ادنی خادم کتاب وسنت پر تو یہ واجب ہوتا ہی ہے کہ اس پردہ داری کو طشت از بام کیا جائے اور اسے رفض وتشیع نیز تحریکیت وتقلیدیت کے دبیز پردوں سے نکال کر لوگوں کے سامنے ظاہر کیا جائے۔
خلاصہ کلام: اس وقت پوری دنیا قوس واحد کے مانند مملکت توحید کے خلاف متحد ہوچکے ہیںجو سلفی منہج پر قائم ہے، کتاب وسنت جس کا دستور ہے، صحابہ کرام کی عظمت جن کا شعار ہے، اسلام کی سربلندی اور حرمین کی حفاظت جن کا عہد وپیمان ہے، آخراس سلفی منہج کے حامی مملکت کے دفاع میں اس وقت کون لوگ ہیں؟ ہر طرح کے شرک وکفر، بدعت وخرافات، حزبیت وتحریکیت اور تقلید وجمود سے کوسوں دور ہوکر خالص کتاب وسنت کے ماننے والوں کے علاوہ آخر کون ہے جو اس وقت اس مملکت کے دفاع میں آرہا ہے؟
آخری سوال: چنانچہ آخری میرا سوال یہی ہے کہ اس اس وقت آخر طائفہ منصورہ کہاں ہے؟ طائفہ منصورہ کا حصہ بننے کیلئے کتاب وسنت نے پورے طور پر صحابہ کرام کو آئیڈیل بنایا ہے، پھر جو انہیں کافر ومرتد سمجھے، ان پر طعن وتشنیع کرے اور آج کل کے دنیا پرست حکمرانوں کی طرح ان پر اقربا پروری کا الزام لگائے، کسی پر فقیہ اور کسی پر غیر فقیہ کا لیبل چسپاں کر کے کبھی ان میں تفریق کرے اور کبھی نحن رجال وھم رجال کہکر انہیں ہما شما سمجھ لے تو آخر وہ طائفہ منصورہ کا حصہ کیوں کر بن سکتا ھے؟ لہذا دور حاضر میں ریاستی پیمانے پر مملکت توحید اور انفرادی پیمانے پر سلفی منہج کے اپنانے والے اگر طائفہ منصورہ نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ اور بھی کوئی ہوگا!!!!!
mdabufaris6747@gmail.com
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1506714146108534&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق