🎪تحریکی اعتراض: سعودی ملوکیت کا کیا جواز ہے؟
👈جواب صرف خلافت وملوکیت کے دیوانوں کیلئے
نوٹ: مضمون طویل ہوگیا لیکن ضروری تھا۔۔۔
☀️تحریکی اور اخوانی سعودی بادشاہت کی مخالفت میں بادشاہت کو اس طرح حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ انکی نظر میں خلافت راشدہ کے بعد سے لیکر آج تک اسلامی دنیا جاہلیت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اور یہ تحریکی واخوانی 1928 سے اسی خلافت راشدہ کا احیاء کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ !!!
☀️آئیے دیکھتے ہیں اس تحریکی اخوانی نظریہ میں کتنا دم ہے، اور کیا یہ حقیقت میں ایسا کرنا چاہتے ہیں جیسا دعوی کر رہے ہیں یا صرف یہ دشمنان اسلام کا آلہ کار بن کر عالم اسلامی کو تباہ کر کے صرف حکومت وسیادت اور کرسی تک پہونچنا چاہتے ہیں؟!
■》پہلی پوائنٹ:
ان دوغلے پنوں اور دوہرے نظریہ کے حاملین کو صرف سعودی ملوکیت پر ہی اعتراض کیوں ہے؟ اسکے بغل میں قطر ہے اس پر انہیں اعتراض کیوں نہیں جہاں موروثی ملوکیت کی جیتی جاگتی مثال موجود ہے اور وہ بھی سازشوں اور انقلابوں کے ساتھ؟
✔کیا محض اس لئے کہ وہ ان کی سرپرستی کرتا ہے؟ ان کے سارے پیر ومرشد کو ٹھکانہ دیئے ہوئے ہے؟
✔آخر ایک صحیح اور دوسرا غلط کیونکر ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ہوائے نفس کی پرستش نہیں ہے کہ جہاں ٹکڑا مل جائے اس کا گن گائیں اور جہاں مکاری نہ چلے اس کی برائی شروع کر دیں؟
■》دوسری پوائنٹ:
یہی منافق ایک طرف سعودی ملوکیت کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف عثمانی سلطنت کے احیاء کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔ چنانچہ حسن بنا وغیرہ کا مقصد بھی یہی تھا کہ کمال اتاترک نے جس ترکی خلافت کی چادر کو تار تار کرکے ایک خلا پیدا کر دیا ہے اسے پورا کرنا چاہیئے ؟
✔سوال یہ ہے کہ جس عثمانی سلطنت کے احیاء کی بات کرتے ہیں یہ ٹحریکی پھکڑ کیا وہ موروثی ملوکیت نہیں تھی؟ آخر 500 سالوں تک انہوں نے حکومت کو اپنے کے علاوہ کیا دوسروں میں منتقل کیا ؟ پھر عثمانی سلطنت کے احیاء کی بات کیوں کرتے ہیں؟ آخر وہ انکی نظر میں اچھا کیوں اور دوسرا برا کیوں؟
■》تیسری پوائنٹ:
یہ منافقین امت ایک طرف سعودی ملوکیت کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف اس اردگان کا گن گاتے ہیں جو خلافت کو ختم کرنے والے مصطفی کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔ اور اسی کے بنائے ہوئے لادینی قانون اور دستور کی محافظت کی بات کرتا ہے۔۔۔۔ جو اپنے ملک میں ہم جنس پرستی کا قانون پاس کرتا ہے۔ فحاشی اور شراب خانوں کے لائسنس جاری کرتا ہے۔۔۔۔
✔آخر کیا سعودی میں ان ساری برائیوں کی سرپرستی حکومت کرتی ہے جن کی سرپرستی اردگان کی حکومت کر رہی ہے؟
■》چوتھی پوائنٹ:
سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ ٹحریکی ایک طرف ملوکیت کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف یہودیوں کی بنائی ہوئی ڈیموکریسی پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔۔
✔کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ قتل وخونریزی چوری ڈاکہ اور فتنہ وفساد ملوکیت کے سائے میں زیادہ پنپتے ہیں یا جمہوریت کے سائے میں؟؟؟؟
■》پانچویں پوائنٹ:
اخوانیوں نے اب تک کئی ملکوں میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جیسے ٹیونس، یمن، مصر اور ترکی وغیرہ۔
✔سوال یہ ہے کہ ان قیادت وسیادت کے بھوکے اخوانیوں نے مذکورہ ملکوں میں کہیں اسلامی شریعت اور حدود وقصاص کا نفاذ کیا؟
✔انہوں نے حکومت ہتھیانے کے بعد اور وہ بھی خون خرابے کے ذریعے اور وہ بھی یہ وعدہ کرکے کہ اسلامی شریعت نافذ کریں گے لیکن انہوں نے کسی بھی جگہ اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں کیا۔۔ بلکہ اسی پارلیمنٹ کو شارع کی حیثیت دے رکھی تھی بلکہ مرسی نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔۔۔ قدیم مصری دستور کے مطابق ہی حکومت چلے گی۔۔۔
✔اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ لوگوں کو ملوکیت سے ڈرا کر صرف حکومت ہتھیانا چاہتےہیں اور بس۔۔۔ آگے اسی صہیونی اور رافضی ایجنڈوں کو پورا کرنا ہے انہیں۔۔۔۔
■》چھٹی پوائنٹ:
ملوکیت کے دشمن ان اخوانی تحریکیوں کے جد امجد مودودی آخر فاطمہ جناح کو ووٹ دیکر اور اس کے حق میں پرچار کر کے کون سی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے پاکستان میں؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ یہ عورت ہے مزید شیعہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
✔کیا ان کے جذ امجد اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں جائز نہیں ہے؟
اور وہ بھی خلافت نہیں یہودیوں کی بنائی ہوئی ڈیموکریسی حکومت۔ اور وہ بھی مرد نہیں ایک عورت کے ذریعے۔ اور وہ عورت بھی شیعہ؟!
👈جب انکے پیروں کا یہ حال تھا تو آخر ان کے پیروکاروں کا کیا حال رہے گا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔
■》ساتویں پوائنٹ:
کیا تحریکی صرف مودودی تفہیم کا حاشیہ ہی پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں یا قرآن وحدیث کا نص بھی دیکھ کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر ملوکیت کی مذمت جس طرح یہ کرتے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ اسلامی رو سے بالکل مرفوض بلکہ انکے نزدیک اسکی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔
👈معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔۔۔
■》آٹھویں پوائنٹ:
کیا اسلام میں کوئی متعین یا کوئی ایک مخصوص نظام حکمرانی کا طریقہ پایا جاتا ہے جس کے مطابق اسلامی حکومت کا چلانا واجب ہے؟
✔نام ونہاد جمہوریت کا کلمہ پڑھنے والے کیا بتہ سکتے ہیں کہ قرآن وسنت میں کونسا طریقہ بتایا گیا ہے جس پر خلافت راشدہ میں عمل ہوا ہے؟
☀️ہمیں تو وہاں مختلف طریقے نظر آرہے ہیں۔۔ یعنی کتاب وسنت کو بنیاد بنا کر صحابہ کرام نے الگ الگ طرز پر خلافت چلائی ہے:
1- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی افضلیت کی وجہ سے چنا جاتا ہے۔۔۔
2-حضرت عمر کو خلیفہ اپنی زندگی میں بغیر کسی کے مشورے سے جانشین بنا دیتا ہے۔
3-حضرت عمر نے اپنی بصیرت سے ایک دوسرا طریقہ بہتر سمجھا اور ایک پینل بنایا پھر اس پینل کے بعض افراد نے شورائیت کی اعلی مثال قائم کی کہ انہوں مدینہ کے ہر ہر فرد سے مشورہ لیا۔۔۔ پھر اپنے صوابدید سے جسے بہتر سمجھا خلیفہ منتخب کر دیا۔۔
4- اس کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے یہ بھی ایک صورت تھی آپ کے ارد گرد قاتل تھے البتہ پچھلی بار سب کی دوسری پسند آپ ہی تھے۔ اسے ہنگامی طور پر خلیفہ کو منتخب کرنا کہہ سکتے ہیں۔۔۔
5- آپ کی شہادت کے بعد آپکے بڑے بیٹے حضرت حسن کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا اور پچھلے تمام طریقوں سے الگ تھا۔۔۔ باپ کے بعد بیٹا منتخب ہو رہا ہے پہلی بار اور وہ بھی خلافت راشدہ کا زمانہ ہے کیونکہ حضرت حسن کے 6 مہینے دور حکومت کو جب تک نہیں جوڑیں گے تیس سال پورے نہیں ہونگے۔۔۔
6- پھر حضرت معاویہ خلیفہ بنتے ہیں حضرت حسن کی دستبرداری کی صورت میں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے۔۔ کہ اختلافات کو ختم کرنے کیلئے اپنے بھائی کے حق میں تنازل اختیار کر لیا جائے۔۔۔۔
7- پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خون خرابے کی ڈر سے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیتے ہیں۔۔ وہ بھی تمام ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ میں پائے جانے والے ذی شعور افراد سے اور سوائے چند کے سب نے بالاتفاق اس پر بیعت بھی کی۔۔ ۔۔
✔یہ بھی صحابہ کرام کا اپنا اجتہاد تھا اور اسلامی حکمرانی کا اپنا طریقہ تھا۔۔۔ اسے موروثی کہہ کر اس سے نفرت کا اظہار کرنا رافضیت ہے کیونکہ حضرت حسن کی خلافت بھی اس سے مجروح ہوتی ہے پھر خلافت راشدہ بھی مجروح ہوگی جو کہ فرنان نبوی کے مطابق علی منہاج النبوہ تھی۔
✔پھر اگر علی کے بعد حسن کی خلافت صحیح ہو سکتی ہے تو پھر معاویہ کے بعد یزید کی کیوں نہیں؟!
✔میں سمجھتا ہوں کہ ان ساتوں طریقوں میں سے حالات کے اعتبار سے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور کتاب وسنت کی روشنی میں وہ اس طریقے سے نظام حکومت چلاتا رہے گا۔۔۔
■》نوویں پوائنٹ:
🌋ایک طرف مودودی کہتے ہیں کہ تیس سال کے بعد ملوکیت شروع ہو گئی۔ اور آج تک اسلامی خلافت قائم نہ ہوئی۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
((اس طرح خلافت راشدہ کے نظام کا آخری اور قطعی طور پر خاتمہ ہو گیا۔ خلافت کی جگہ شاہی خانوادوں Dynasties نے لے لی۔ اور مسلمانوں کو اس کے بعد سے آج تک پھر اپنی مرضی کی خلافت نصیب نہ ہو سکی۔ حضرت معاویہ کے محامد ومناقب اپنی جگہ ۔۔۔۔۔ لیکن ان کے غلط کام کو تو غلط کہنا ہی ہو گا۔ اس کے صحیح کہنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے صحیح وغلط کے معیار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔۔۔)) خلافت وملوکیت ص 153
✔لیکن وہیں دوسری طرف اعتراض کرنے پر آئیں بائیں شائیں مار کر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ نظام حکومت وہی تھی صرف حکومت کرنے والے بدل گئے تھے۔۔۔۔۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
"خلافتِ راشدہ کے بعد جو تبدیلی واقع ہوئی وہ کانسٹی ٹیوشن کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اشخاص و افراد کی تبدیلی تھی۔ ملک کا قانون وہی رہا، حکومت کا دستور وہی رہا۔ تعزیرات خدا کی قائم کی ہوئی تھیں، حدود الہ مقرر کئے ہوئے تھے، جائیدادیں قرآن کے بنائے ہوئے قاعدے کے مطابق تقسیم ہوتی تھیں۔ صرف اس نظام کے چلانے والے افراد میں یہ تبدیلی ضرور ہوگئی تھی کہ وہ صدیقِ اکبرؓ اور فاروقِ اعظمؓ کی طرح متقی اور خدا ترس نہ تھے، تاہم ان میں سے کسی کے لئے بھی یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خدا کے قانون کی جگہ اپنا قانون چلادے"۔ (رودادِ جماعتِ اسلامی حصہ سوم صفحہ ۲۴۲)
✔ایک دوسری جگہ مودودی خلافت و ملوکیت میں اختصار کے ساتھ اموی و عباسی دور کے متعلق لکھتے ہیں:"اس کے چلانے والے مسلمان تھے جو اسلام اور اس کے قانون کو مانتے تھے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے حجت ہونے کا انہوں نے کبھی انکار نہ کیا۔ عام معاملات ان کی حکومت میں شریعت ہی کے مطابق انجام پاتے تھے۔" (صفحہ ۲۰۲)
👈سوال یہ ہے کہ جب بعد کے زمانے میں خصوصا اموی دور میں جب سارے دستور وہی تھے جو خلافت راشدہ میں تھے صرف افراد کا بدلاؤ تھا پھر دور اموی کی مذمت کیوں ؟ مودودی کے اعتبار سے اگر سارے دستور وہی ہوں یعنی کتاب وسنت پر عمل ہو حدود وقصاص وغیرہ کا نفاذ ہو تو پھر بنی امیہ کی ملوکیت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔
لیکن آخر دوسری جگہوں پر ملوکیت کی اتنی مذمت کیوں کرتے ہیں یہ تحریکی۔۔۔۔ کیا بنو امیہ دور ملوکیت کا دور نہیں تھا اور کیا اسی کا ایک حصہ عمر بن عبد العزیز بھی نہیں تھے؟!
👈نیز بارہ خلفاء والی حدیث کی روشنی میں انہیں خلفاء بھی ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔ خلیفہ کو بادشاہ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ خليفة المسلمين حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کہا گیا ہے۔۔
🌋دراصل یہ سب ان کا دین اسلام سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف صحیح مسلم کی کتاب الامارہ اگر پڑھ لیتے تو اپنے باطل باغیانہ اور خونخوار نظرئے سے رجوع کر لیتے۔ لیکن ان کا مقصد اور ٹارگٹ ہی کچھ اور ہے۔ اور وہ ہے کرسی کرسی کرسی۔ اور وہ بھی وہ چاہے جیسے ملے۔۔۔
✔ویسے نہیں مودودی نے خمینی کے پاس جو خط لکھا تھا اس میں اپنے خارجی نظریئے کی صاف صاف وضاحت کر دی تھی کہ اس وقت ایران دار الاسلام بن چکا ہے میری خواہش ہے کہ اسیطرح کا انقلاب پاکستان میں بھی آجائے تاکہ ایران کے ساتھ پاکستان بھی دار الاسلام بن جائے۔۔۔۔
متعہ پر چلنے والا ملک مودودی کی نظر میں دار الاسلام باقی سب دار الکفر ہے۔۔۔۔! ایسے خارجی سوچ پر ایک تحریکی ہی خوش ہوکر ڈھول پیٹ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
■》دسویں پوائنٹ:
سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں ملوکیت یعنی بادشاہت کی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ تحریکی عوام کو باور کرانا چاہتے ہیں؟
☀️آئیے کتاب وسنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہ سرپھرے اخوانی تحریکی جو عوام کو ملوکیت کے نام پر بے وقوف بناتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے؟!
☀️سب سے پہلے قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ ملوکیت یعنی بادشاہت کے بارے میں آیا مذمت وارد ہوئی ہے یا اس کی فضیلت اور اہمیت بتائی گئی ہے؟
ارشادباری تعالی ہے:
[وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ]
اور یاد کرو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔
( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 20 )
ترجمہ:
اللہ تعالی نے بنو اسرائیل میں انبیاء کے ساتھ بہت سارے بادشاہ بھی بنائے بلکہ کئی ایک نبی کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے۔ اور اسے اللہ تعالی بطور فضل واحسان کے ذکر کیا ہے۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے ، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔
☀️اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا اور نہ ہی اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا ، جیسا کہ اِس آیت میں فرما رہا ہے۔
[أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ]
کیا آپ نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 246 )
✔گویا نبی کی موجودگی میں بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ ، بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بادشاہت جائز ہی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا۔ لیکن اللہ نے اس مطالبے کو رد نہیں فرمایا ، بلکہ طالوت کو ان کے لیے بادشاہ مقرر کر دیا ( جیسا کہ اس سورۃ کی آگے کی آیات میں وضاحت ہے )۔
🌋بلکہ حضرت سلیمان نے تو بادشاہت کیلئے دعا کی تھی جیسا کہ قرآن نے ذکر کیا ہے:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ۔
اے اللہ مجھے معاف کر دے اور ایسی بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے بعد کسی کیلئے مناسب نہ ہو بیشک تو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔۔
👈اور اللہ نے انکی دعا قبول بھی کی اور ایسی بادشاہت عطا کی کہ اس طرح آج تک کسی کو عطا نہیں کیا۔۔۔
تحریکی نظر سے اس دعا کی مقبولیت کیا معنی رکھتی ہے؟
☀️اور بادشاہت کی فضیلت اور اس کی اہمیت ہی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں بھی:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
آل عمران 26
ترجمہ: کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
📚اب آئیں سنت کی طرف دیکھتے ہیں یہاں بادشاہت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس نظر سے دیکھی ہے:
☀️نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باد شاہِ حبشہ نجاشی( رح) کی غائبانہ نمازِجنازہ بھی پڑھائی تھی اور انہیں ان الفاظ میں یاد کیا تھا:
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ النَّجَاشِيُّ: ""مَاتَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَى أَخِيكُمْ أَصْحَمَةَ"".
صحیح بخاری حدیث نمبر 3877
ترجمہ: جس دن نجاشی ( حبشہ کے بادشاہ ) کی وفات ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آج ایک مرد صالح اس دنیا سے چلا گیا، اٹھو اور اپنے بھائی اصحمہ کی نماز جنازہ پڑھ لو۔“
✔ذرا سوچئے اگر بادشاہت کوئی باطل نظام ہوتی تو کیا اللہ کے محبوب صل اللہ علیہ وسلم ایک بادشاہ کو صالح کہتے ؟
👈اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے۔
☀️اسی طرح اگر تاریخ کے اوراق الٹ کر دورِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بادشاہوں کے قصوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں:
نجاشی بادشاہ ، مصر و اسکندریہ کا بادشاہ ، شاہ فارس خسرو پرویز ، شاہ روم قیصر ، حاکمِ بحرین منذر بن ساوی ، حاکم دمشق ، شاہِ عمان ...
یہ سب اپنے اپنے علاقے کے بادشاہ تھے۔
☀️اور "تاریخ" میں ایسا کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ بادشاہت چھوڑ دینے کا بھی ان سب سے مطالبہ کیا ہو۔
☀️"تاریخِ اسلام" کے طالب علم کو اُن تمام خطوط کا بھی اچھی طرح علم ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مذکورہ بالا بادشاہوں کو تحریر کئے تھے۔ اور اُن تمام خطوط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ... " .... اسلام لاؤ ، سلامت رہوگے ۔ ........"
✔چنانچہ شاہ عمان کے نام تحریر کردہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خط کا ایک اہم حصہ تاریخ کی کتابوں میں یوں درج ہے :
" .... اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لوگے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا۔ اور اگر تم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمھاری بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ .........."
(بحوالہ: زاد المعاد ، ج:3 ، ص:62-63)
☀️ان جملوں کا ایک ہی مطلب یوں نکلتا ہے کہ ۔۔۔۔
اسلام قبول کروگے تو بادشاہت برقرار رہے گی ، قبول نہ کروگے تو بادشاہت ختم ہو جائے گی !!
■》گیارہویں پوائنٹ:
مزید حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہت سونپی تھی یا خلافت ؟ آپ کی دستبرداری کس چیز سے تھی؟
ظاہر ہے آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت سونپی تھی۔۔ پھر مودودی جیسے لوگ کون ہوتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہت دینے والے؟! آپ کی شان وشوکت کو دیکھ کر کیا کسی کے بادشاہ کہہ دینے سے بادشاہ مان لیں گے؟ یا اسے ایک صفت کہہ سکتے ہیں؟ آخر سلیمان علیہ السلام کو بادشاہ کون کہتا ہے؟
■》بارہویں پوائنٹ:
بارہ خلیفہ والی متفق علیہ حدیث خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موروثی خلافت کوئی بری چیز نہیں ہے۔۔۔ آپ نے بطور پیشین گوئی یہ فرمایا ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : ( إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً . قَالَ : ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ . قَالَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَا قَالَ ؟ قَالَ : كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ )۔
رواه البخاري (رقم/7222) ومسلم واللفظ له (رقم/1821).
وفي لفظ عنده أيضا :
( لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً )، وفي لفظ آخر: ( لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ عَزِيزًا مَنِيعًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً )۔
یہ دین اس وقت تک بڑا مضبوط اور طاقتور رہے گا جب تک بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں۔۔۔
👈 منهاج السنة" (8/170) میں ابن تیمیہ نے اور "فتح الباري" (13/214) میں حافظ ابن حجر نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ ان بارہ خلیفہ سے مراد خلفاء راشدین کے ساتھ ساتھ عمر بن عبد العزیز کے بعد ولید بن یزید بن عبد الملک تک مراد ہیں۔ اسکے بعد جب اختلاف وانتشار شروع ہوا تو پھر ختم نہیں ہوا اور عباسی دور آنے تک خلافت کئی حصوں میں بٹ گئی۔۔۔۔
☀️حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ہے کہ میری نبوت کے بعد تیس سال خلافت ہوگی پھر بادشاہت کا دور شروع ہو جائے گا۔۔۔
پہلے تو یہ حدیث مختلف فیہ ہے لیکن اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کی یہ توجیہ کی جائے گی کہ وہ تیس سال کی خلافت علی منہاج النبوہ مراد ہے جو خلفائے اربعہ پر ختم ہوجاتی ہے پھر حضرت حسن سے موروثی خلافت کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔۔۔۔
☀️اور طبرانی کی مشہور روایت جسے علامہ البانی نے صحیح کہا ہے اس میں یہ تفصیل ہے کہ اس بادشاہت میں کچھ تو رحمت ہوگی اور کچھ زحمت ہوگی۔۔۔:(( يكون الملك نبوة ورحمة، ثم تكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة، ثم ملك وجبرية، ثم ملك عضوض))۔
☀️درج بالا آیات واحادیث اور دور نبوی کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ بادشاہت کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ ایک نعمت خداوندی ہے۔۔ ایک بادشاہ جب اللہ کی خوشنودی کی خاطر کتاب وسنت کی روشنی میں حکومت کرتا ہے تو وہ رحمت ہوتا ہے۔
■》مین پوائنٹ:
اب آئیں آخر میں دیکھتے ہیں کہ کیا سعودی بادشاہت کے لئے جواز کی کوئی صورت ہے؟!
🕋تاریخ المملکہ پر جس کی بھی نظر ہوگی وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہوگا کہ بانی مملکہ محمد بن سعود اور شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب دونوں نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ جزیرہ عرب میں کتاب وسنت کے مطابق حکومت کی جائے گی۔ شرک وبدعت کو جڑ سے ختم کیا جائے گا۔ حدود وقصاص کا نفاذ ہوگا۔
☀️اور یہ بادشاہت اسی وعدے پر آج بھی قائم ہے۔ حرمین سریفین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے نشر واشاعت کرتی ہے اور تمام شعبوں میں کتاب وسنت ہی کی بالادستی کو تسلیم کرتی ہے۔۔ آج بھی حدود وقصاص کا نفاذ ہوتا ہے۔۔
☀️علامہ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سعودی حکومت بہترین سلفی حکومت ہے۔ قرون مفضلہ کے بعد (پوری تاریخ میں) سعودی عرب سے بہتر کوئی ایسی حکومت نہیں پائی جاتی جس نے توحید اور سلفی عقیدے کی اس قدر نشر و اشاعت کی ہو۔ سعودی عرب حرمین شریفین کا ملک، توحید کی پناہ گاہ اور سلفی دعوت کا مرکز ہے۔ سعودی عرب سے دشمنی کرنا دین سے دشمنی کرنا ہے*
(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة 1/380)
👈مضمون کی طوالت کی وجہ سے آگے نہ لکھ کر حوالہ پر اکتفا کر رہا ہوں ۔ سعودی نظام حکومت پر تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں۔
اس کیلئے دیکھیں اس مضمون کو:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1477137992399483&id=100003098884948
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق