🌋کیا اقامت دین سے مراد حکومت قائم کرنا ہے یا دینی فرائض کی ادائیگی ہے؟!
[[ مولانا مودودی نے اپنی بعض کتب: تفہیمات، خطبات اور تجدید و احیائے دین وغیرہ میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ انبیا کی بعثت کا اصل مقصد اور اہل اسلام کا اصل فریضہ اسلامی حکومت کی تشکیل ہے اور باقی عبادات: نماز، روزہ حج وغیرہ یہ سب اعمال اسی مقصود اصلی کی تیاری کے لیے تمرینات و تدریبات اور ٹریننگ کورس کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔۔۔وہ اسی فکر کو اقامت دین سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی وہ محدث فکر اور خود ساختہ موقف ہے جس کو بدعت قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔یہاں یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس فکر پر تنقید اور اس کی تبدیع میں عرب و عجم کے اکابر علما اس ذہنیت کی تغلیط کر چکے ہیں اور ان کی گزارشات منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے اردو دان حضرات شیخ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی کتاب " تنقید المسائل" ملاحظہ کریں جس میں مولف نے انتہائی مضبوط علمی پیرائے میں مولانا مودودی کے افکار کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اس ضمن میں ان کے نظریہ اقامت دین کی حقیقت طشت از بام کی ہے۔اسی طرح ایک مختصر رسالہ مولانا نعیم الحق نعیم مرحوم نے " دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصول" کے نام سے لکھا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔
منقول]]
🛑اس پر پڑھیں ایک خوبصورت مضمون ⬇️⬇️⬇️
🌋#اقامت_دین_کا_خود_ساختہ_مفہوم
◀️دین حنیف کی اصل شکل جو خیر القرون میں موجود تھی اس پر شخصی آراء کا غلاف چڑھا کر مسخ کردیا گیا ہے، مکہ میں اسلام بالکل اجنبی تھا، توحید باری تعالٰی کے مخالفین ومعاندین کثیر تعداد میں موجود تھے، اس کے باوجود اللہ رب العالمين نے اپنی وحدانیت کا نعرہ بلند کرنے کا حکم دیا، توحید کی یہ تعلیم تقریبا ١٢ سالوں تک مسلسل چلتی رہی جس کا مقصد لوگوں کو انسانوں کی عبادت سے چھٹکارا دلا کر انسانوں کے خالق سے رشتہ جوڑنا تھا، ہجرت سے کچھ قبل واقعہ معراج پیش آیا اور پھر احکام شریعت کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن اب تک اقامت دین کا وہ مفہوم اللہ رب العالمین نے نازل نہیں کیا جو مولانا مودودی اور ان کے ہم مسلک ومشرب سمجھتے ہیں.
پھر ہجرت کا حکم ہوا، مدینہ آنے کے بعد اسلامی احکام پے درپے نازل ہونے لگے، جیسے روزہ، زکوۃ، حج، پردہ وغیرہ، لیکن ہنوز اقامت دین کا وہ مفہوم نازل نہیں ہوا جو ہندوستان کے ایک شخص نے بیان کیا.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی صحابہ کرام کو جمع کرکے اقامت دین کے اس مفہوم سے آگاہ نہیں کیا جو مولانا مودودی کی قلمی جولانی نے سمجھا ہے.
پھر خیر القرون میں سے اخیار کا دور شروع ہوا، بالترتیب خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے دور حکومت میں اقامت دین کا وہ مفہوم بیان نہیں کیا جو خلافت و ملوکیت لکھنے والے نے بیان کیا.
دور صحابہ میں ہی جب خلافت بنو امیہ کے ہاتھ میں گئی اور ان سے بعض منکرات کا صدور ہونے لگا تو صحابہ کرام نے خفیہ طور لوگوں کے مابین حکومت وقت کے خلاف بغاوت کا درس نہیں دیا، اور نہ ہی اقامت دین کے اس مفہوم کو ایجاد کیا جس کیلئے مولانا مودودی سعی پیہم کرتے رہے.
امام احمد رحمہ اللہ کے دور میں جب معتزلہ حکام سے قریب ہوکر اسلامی تعلیمات کی شکل تبدیل کر رہے تھے پھر بھی اس زمانہ کے معروف ائمہ کرام نے اقامت دین کا وہ مفہوم لوگوں کو نہیں بتایا جس کی ترویج مولانا مودودی کرتے رہے.
مجددین، محدثین، فقہاء، مفسرین اور علماء کرام سے ہر زمانے میں دنیا معمور رہی، علم شریعت کا پرچم بلند رہا لیکن ان سبھی کے نزدیک دین کا بنیادی مقصد توحید، اطاعت رسول اور حقوق العباد کی ادائیگی تھی، کسی بھی محدث نے اپنی کتاب میں اقامت دین کے اس مفہوم کا باب نہیں لگایا جو مولانا مودودی کے نزدیک تھا، نہ کسی عقیدہ کے کتاب میں اس کے متعلق گفتگو کی گئی، اور نہ ہی کتب فقہ میں اس مسئلہ کو زیر بحث لایا گیا.
قارئین کرام: ایک شخص اقامت دین کے مفہوم میں زمانہ نبوت سے لے کر آج تک کے علماء سے اختلاف رکھتا ہو اور خود ساختہ مفہوم بیان کرتا ہو جس کا شریعت سے دور کا بھی لینا دینا نہیں تو کیا اس کو بدعت کہنا جرم ہے؟
یاد رہے کہ اقامت دین بمعنی اسلامی حکومت قائم کرنے کی ترغیب اللہ رب العالمين نے مسلمانوں کو کبھی نہیں دی، بلکہ توحید کی نشر واشاعت، شرک کا قلع قمع، اقامت صلوۃ، زکاۃ کی ادائیگی اور اطاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نتیجے میں رب العزت نے خود خلافت دینے کا وعدہ کیا ہے، گویا اسلامی خلافت توحید اور اسلامی احکام کی تبلیغ کا ثمرہ ہے جو مذکورہ امور کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوگی .
اس لئے جس چیز کی ذمہ داری اللہ رب العالمین نے خود لی ہے اسے اسی کے ذمہ رہنے دیں، اور جن ذمہ داریوں کی ادائیگی ہم پر ڈالی ہے انہیں پورا کرنے میں ہم کوئی کسر نہ چھوڑیں.
ایک مختصر واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے زمانے میں سن ٧٠٢ ہجری میں تاتاریوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا، مسلمان بادشاہ کا نائب جمال الدین الافرم شہر چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر تاتاریوں کا زبردست مقابلہ کیا، اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو تاتاریوں پر غلبہ عطا کیا اور مسلمان فتح یاب ہوئے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، اسلامی حدود کا نفاذ کیا، شراب کے اڈے مسمار کئے، زکوۃ کا نظام بحال کیا، پھر جمال الدین الافرم کو بلایا اور حکومت کی ذمہ داری ان کے سپرد کی، اور خود اپنے شاگردوں کے ساتھ دعوت و تبلیغ میں لگ گئے(١)، اسی کو سلفی منہج کہتے ہیں، تاتاریوں کے حملہ سے قبل انہوں نے اقامت دین کا خود ساختہ نظریہ پیش نہیں کیا، اور نہ ہی مسلم عوام کو حکومت کے خلاف ابھارا، لیکن جب اسلامی حکومت کو خطرہ درپیش ہوا تو آگے بڑھ کر دشمنوں سے مقابلہ کیا اور اسلامی حکومت کو بحال کیا اور پھر سے حاکم وقت کو اس کی حکومت سونپ دی، اس کے بعد وہ اقامت دین اقامت دین کی رٹ نہیں لگاتے رہے بلکہ توحید اور اس کے تقاضے کی نشر واشاعت میں لگ گئے.
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
.............................................................
(١) العقود الدریہ لابن عبد الہادی (١٢٣)
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق