الجمعة، 19 أكتوبر 2018

فلسطینیوں کا اخلاقی ومالی تعاون سعودی سے زیادہ کس کا؟!

💥فلسطینیوں کا اخلاقی اور مالی تعاون:💥
🙋مملکت سعودی عرب سے زیادہ کس کا؟
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
میڈیا کے اس دور میں تیس مار خان اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کیلئے فلسطین کا ہر کوئی ہمددر بنا پھرتا ہے۔ لمبی لمبی تقریریں، میڈیا کانفرنس، سرکاری بیانات، لمبی لمبی رپورٹیں ، اخباری کالمز،فلسطین کے حق میں بلند وبھاری بھرکم نعرے لگانا ، سڑکوں پر مظاہروں کا اہتمام کرنا اور نہ جانے یہ زبانی دعوی کرنے والے ٹیوٹر، فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپوں پر بیٹھ کر کیا کیا کر رہے ہیں۔ یہ سب بظاہر میڈیا میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن فلسطینی سرزمین پر حقیقت کی دنیا میں اہل فلسطین کی حقیقی مدد اور تعاون کون کر رہا ہے ؟ فلسطینی مسئلے پر تجارت کون کررہا ہے؟ لوگوں کے جذبات سے کون کھیل رہا ہے؟ یہ سب جواب عالمی ، ملکی اور علاقائی تنظیموں، تاریخی دستاویزوں ، فلسطین کی فائلوں ، غیر جانبدار اخبارات اور خود اہل فلسطین دیں گے۔
 رواں ماہ13/دسمبر کو ترکی صدر رجب طیب اردگان کی دعوت پراستامبول شہر میں او آئی سی کی بیٹھک ہوئی جو دراصل رافضیوں اور اخوانیوں کی تحریک سے اخلاقی اور اظہار یکجہتی کے نام پر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کیلئے بلائی گئی تھی جس میں انہوں نے بلاقیمت فری میں اہل فلسطین کے ساتھ تعاون کا سارا کریڈٹ اپنے سر لینے کی کوشش کی جبکہ حقیقی تعاون پیش کرنے والے اور ہمیشہ سے اہل فلسطین کا ساتھ دینے والے کے تمام کارناموں کو سبوتاز کرنے کی سعی نامسعود کرنے کی چال چلی گئی لیکن اللہ رب العزت جسے سربلندی عطا کرنا چاہے ، جسے عزت دینا چاہے اسے کوئی رسوا نہیں کرسکتا اور اسی طرح اللہ رب العزت جسے ذلیل وخوار کرنا چاہے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا چنانچہ (ومن يهن الله فما له من مكرم) کے تحت فلسطینی صدر محمود عباس نے بھری مجلس میں اس حقیقت کا اعتراف کرکے اور یہ کہہ کر سارے اخوانی اور رافضی چیلوں کو رسوا کر دیا اور سعودی عرب کے سر کو بلند کردیاکہ:( ہمیں اقوال نہیں اعمال کی ضرورت ہے ، اور یہ سب کو پتہ ہونا چاہیئے کہ مملکت سعودی عرب ہمارے ساتھ شروع ہی سے ہر طرح کے تعاون کے ساتھ کھڑا ہے، یہ مملکہ کا تسلسل کے ساتھ ثابت موقف ہے جو اہل فلسطین کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے، ہماری آخری ملاقات میں خادم الحرمین ملک سلمان بن عبد العزیزؒ نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطین کا حل بغیر قدس کے ممکن نہیں ہے)۔ 
اور ویسے بھی ان لوگوں نے اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کون سا محاذ بنا لیا جو اب تک سعودی نہ کر سکا۔ کم از کم اخوانیوں کے قطری خلیفہ اور ترکی امیر المومنین سے اتنی امید ضرور کی جا رہی تھی کہ یہ (مقدس ہستیاں) کم از کم اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کر لیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ وہ بھی نہ کر سکے۔ نعروں اور جعلی دھمکیوں کے سہارے جینے والوں کی آنکھیں اب بھی نہیں کھلیں گی تو کبھی نہیں کھلیں گی۔
 اسی طرح( أهل مكة أعرف بشعوبها ) مقولے کے تحت اسی موقعہ پر ریاض میں موجود فلسطینی سفیر باسم آغا نے کہا کہ اہل فلسطین کے ساتھ سعودیہ کے واضح اور صاف متعاون موقف کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غزہ میں حماس کے ذریعے سعودیہ کے خلاف پھیلائے گئے سارے افواہ بے بنیادہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
 ابھی گزشتہ سال 2016ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین کیلئے عطیہ دہندگان بیس ممالک کی سالانہ لسٹ جاری کی گئی جس میں قطر، ایران اور ترکی تینوں کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے جبکہ آخری بیس نمبر پر آئر لینڈ کا نام ہے جس کا تعاون گزشتہ سال صرف (6,098,203) امریکی ڈالر تھا ۔
 رافضی ایران اہل فلسطین کی مدد کیوں کر سکتا ہے جو کہ اہل سنہ کا سخت دشمن ہے ؟ ہاں حزب اللہ اور حماس کا تنظیمی طور پر اپنی پکڑ بنانے کیلئے اور شیعیت پھیلانے کیلئے ان کی مدد ضرور کر رہا ہے اور ساتھ ہی اسکی تشہیر بھی کرتا ہے۔ جبکہ اسے فلسطینی عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے فلسطینی سرزمین کے علاوہ عراقی، شامی، لبنانی اور یمنی سنی مسلمانوں سے اسکی گواہی لی جاسکتی ہے۔ یاسر عرفات اسی کی دہائی میں خمینی کے پاس گئے تھے لیکن سیاسی، عسکری اور مالی ہر سطح پر مایوسی ہی لیکر واپس آئے۔ تاریخی ریکارڈ میں موجود ھے کہ مرگ بر اسرائیل کہنے والے ایران نے اسرائیل فلسطینی لڑائیوں(82/78/73/67/48) میں اپنا ایک بھی سپاہی نہ بھیجا بلکہ 48 میں ایرانی شاہ رضا پہلوی نے فلسطین کے خلاف اسرائیل کی مدد کی تھی۔ 
 جہاں تک ترکی کامعاملہ ہے تو وہ تو کل تک علمانیت زدہ تھا لیکن اب جو کچھ سالوں سے اردگان کی حکومت آئی ہے جو اخوانیت ، تحریکیت، شیعیت ، صوفیت اور خانقاہیت کا معجون مرکب ہے۔ترکی میں اسلام کے نام پر تحریکی صوفی افکار کو عام کیا جارہا ہے ۔ پردے کا یہ حال ہے کہ کسی عورت کے برقعہ نہیں بلکہ اسکارف پہن لینے سے یورپ میں بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ اخلاقیات کا حال یہ ہے کہ اردگانی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ابھی حال میں مساجد سے سو میٹر دور رہ کر شراب پینے کی اجازت مرحمت کی گئی ہے۔ لیکن ابھی سے حضرت کو تحریکی ٹولہ اس طرح شو کئے جارہا ہے گویا وہ مسلمانوں کے امیر المومنین ہوگئے ہوں۔
  سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی مدد یہ جناب فلسطین کی کتنا کرسکتے ہیں جبکہ یہ اسرائیل سے ابھی تک ہر طرح کا تعلق بنائے بیٹھے ہیں؟ اسی بات کو لیکر ترک عوام نے ان کے خلاف مظاہرہ بھی کیا تھا جنہیں جیل میں ڈال دیا گیا کہ پہلے آپ اسرائیل سے سارے تعلقات توڑئیے پھر فلسطین کی بات کیجئے۔ ویسے اقوام متحدہ کی رفیوجی کیمپوں کی نگرانی کرنے والی تنظیم اونروا (UNRWA) نے آخری پانچ سال کے تعاون کا سعودی اور ترکی موازنہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی نے (30) ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا ہے تو سعودی نے (511)ملین امریکی ڈالر کا تعاون دیا ہے۔ 
  حالیہ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب اہل فلسطین کی مدد کرنے میں پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر جبکہ امریکہ اور یورپ کے بعدافریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا میں اور خصوصا عرب ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ 
   اس کے باوجود مملکت سعودی عرب دشمنانِ توحید ، اہل رفض نیز اہل تحریک وتقلید کی نظر میں ہمیشہ سے مطعون رہا ہے لیکن موجودہ پروپیگنڈے کے دور میں کچھ زیادہ ہی اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عالمی ، اسلامی، عربی، محلی اورعلاقائی جتنے بھی سطح پر سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی سخاوت اور فیاضی کے روشن باب ہوں سب کو یکلخت انکار کیا جارہا ہے۔ عالمی اور اسلامی پیمانے پر اسکے مالی تعاون کے مساعی جلیلہ اور احسانات بارزہ نے جس طرح تاریخ کے صفحات میں جگہ بنالی ہے اسے ایک جاہل، ہٹ دھرم اور منکر حق نیز ایک ناشکرا ہی انکار کر سکتا ہے۔ خصوصاً فلسطین کا قضیہ جو موجودہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے مملکت سعودی عرب نے اسکا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی موسس مملکہ ملک عبد العزیز نے پوری جوانمردی اور سخاوت وفیاضی کے ساتھ سیاسی ، عسکری اور مالی ہر اعتبار سے اہل فلسطین کا ساتھ دیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اہل فلسطین کے تعلق سے مملکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ فلسطینی مسئلہ ہمیشہ مملکہ کے اولین ترجیحات میں رہا ہے اور ہے اور رہے گا۔
 ذیل میں حوالوں کے ساتھ تاریخی دستاویزوں اور غیرجانبدار اخبارات نیز عالمی اور ملکی تنظیموں کے ریکارڈ کی روشنی میں اہل فلسطین کے ساتھ سعودی عرب کے اخلاقی اور مالی تعاون کا ایک خاکہ پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ افواہوں اور پروپیگنڈوں کے اس دور میں حقائق بھی لوگوں کے سامنے آسکے اور مملکہ کے حاسدین ومعارضین کے منہ بھی بند ہوسکیں۔
- 1936ءکے اندر انگریزوں کے خلاف فلسطینی انقلا ب کے نتیجے میں فلسطینیوں کو لاحق نقصانات کے مد نظر ملک عبد العزیز ؒ نے ۵/جون 1936ءمیں وزارت خارجیہ اور وزارت مالیہ دونوں کو حکم صادر کیا کہ ضرورت کی ساری چیزیں فوری طور پر اہل فلسطین کو فراہم کی جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تنفیذ کرکے مملکہ میں زبردست فلسطینی تعاون اکٹھا کیا گیا اور فلسطین پہونچایا گیا۔ 
-948 1ءکے اندر عرب -اسرائیل جنگ کے وقت مملکت سعودی عر ب کے اندرفلسطین کیلئے زبردست تعاون کی مہم چلی ۔ اس وقت امیر فیصل بن عبد العزیزؒ نے خود تبرعات کے جمع کرنے میں عملا ً شرکت کی ۔ جگہ جگہ اس کے لئے آپ نے خطاب بھی کیا۔ 
- 1948ءکی جنگ میں شہید ہونے والوں کے خاندان کی مملکت سعودی عرب نے کفالت کی ذمیداری لے لی۔ میدان جنگ کے اندر لڑنے کے بعد جن مجاہدین کو کسی طرح بھی معذوری لاحق ہوئی ان سب کیلئے مملکت نے لائف ٹائم مالی تعاون کی ضمانت لی۔ رضاکارانہ طور پر جتنے سعودی باشندوں نے جنگ میں حصہ لیا سب کو مملکہ نے سرکاری فوج کے مقام ومرتبہ کا فوجی قرار دیا؛ چنانچہ انہوں نے بھی وہ ساری مراعات حاصل کی جو سرکاری فوج کیلئے مختص تھے۔ 
- 1948ءکی جنگ میں تمام فوجی سربراہوں،جنرلوں اور قائدوں کیلئے مملکہ نے اپنے خرچ پر فریضہ حج کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔ بلکہ تمام عرب ممالک کے فوجی قائدین کو مملکہ نے اپنے خرچہ پہ حج کرنے کی دعوت دی۔ 
-1967ءکی جنگ کے بعد ملک فیصل بن عبد العزیزؒ نے شہدائے فلسطین کے خاندانوں اور فلسطینی مجاہدین کے تعاون کیلئے عوامی کمیٹیوں (لجان شعبیة) کی تشکیل دی اور منطقہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبد العزیز (موجودہ فرمانروا)کو اس کا سربراہ بنا دیا جنہوں نے اس کے لئے پورے مملکت سعودی عرب میں مختلف شہروں میں 12/مراکز قائم کیا۔ اس طرح فلسطینیوں کیلئے بڑے پیمانے پر تعاون کی اپیل کی گئی جس میں سبھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ (پورے عالم عرب میں فلسطینیوں کے تئیں یہ اپنی نوعیت کا ایک ناد ر جذبہ تھا)
-1967ءکی اسی منحوس جنگ کے بعد فلسطین کی مملکہ نے فیاضہ مدد کی اور اسی سال خرطوم میں منعقد عرب چوٹی کانفرنس کے تحت فلسطین کے علاوہ جن پڑوسی ممالک اردن اور مصر کو کافی جنگی خسارہ لاحق ہوا کویت اور لیبیا کے ساتھ ساتھ سعودی نے ان ممالک کا بھی بھر پور تعاون کیا ۔ چنانچہ اگر کویت نے مصر کو 39/ملین اور اردن کو 16/ملین ، جبکہ لیبیا نے مصر کو 24/ملین اور اردن کو 10/ملین معاون کیا تو وہیں پر سعودی نے مصر کو 41/ملین اور اردن کو 17/ ملین تعاون پیش کیا۔ 
-1978ءمیں بغداد کے اندر منعقد عرب چوٹی کانفرنس کے تحت مملکہ نے فلسطینیوں کی انیس کروڑ تہتر لاکھ (1,97,300,000) امریکی ڈالر سے مدد کی ۔یہ تعاون دس سالوں کیلئے تھا یعنی1979ءسے 1989ءتک۔ 
- 1982ءمیں لبنان پر اسرائیل کے جارحانہ رویے کی بنیاد پر ملک خا لد بن عبد العزیز ؒ نے سعودی فوجی ذخیرے سے اسلحہ کے ذریعے فسلطینی جنگجووں کی خصوصی تعاون کی۔ اور جب یاسر عرفات مزید تعاون کیلئے مملکت سعودی عرب تشریف لائے تو آپ نے اپنے خاص حساب سے پانچ ملین ڈالر کی مدد کی۔ 
-1987ءمیں پہلے انتفاضہ کے وقت فلسطینی انتفاضہ فنڈ (صندوق الانتفاضة الفلسطینی)کے تحت مملکہ نے چودہ لاکھ تینتیس ہزار (1,433,000) امریکی ڈالر تعاون پیش کیا۔جبکہ عالمی صلیب احمر (الصلیب الاحمر الدولی) کو ادویہ ، طبی سازوسامان نیز غذائی مواد کیلئے بیس لاکھ امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔ 
-1988ءمیں جزائر میں منعقد عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس کے اندر فلسطینی استفاضہ کے تعاون پر زور دیا گیا تھا نیزیہ کہ اسے تسلسل کے ساتھ بحال رکھا جائے اور اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کیلئے انتفاضہ کی ہر طرح مدد کی جائے۔ اسی قرارداد کی مناسبت سے مملکت سعودی عرب نے ۹۸۹۱ءکے اندر یہ تاریخی فیصلہ لیا کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں متحرک انتفاضہ کی ماہانہ تعاون کی جائے گی۔ چنانچہ اسکے لئے سرکاری خزانے سے۶/ملین اور بیس ہزار ڈالر ماہانہ جاری کیا گیا۔ 
-مملکہ کے اندر سعودی ترقی فنڈ (الصندوق السعودی للتنمیة) کے اندر تین سو (300)ملین امریکی ڈالر کے راس المال کاایک خصوصی پروگرام ہے جسے بہت پہلے ہی سے فلسطین کے اندرصحت ، تعلیم اور تعمیرات کے شعبوں میں خرچ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اور اس کا اعلان مملکہ عطیہ دہندگان ممالک (الدول المانحة) کے ذریعے1999-97-95-94ءکے مختلف سالوں میں منعقد کانفرنس میں کرچکا ہے۔ 
- مذکورہ سالوں میں مملکت سعودی عرب یہ بھی اعلان کرتا رہا ہے کہ فلسطینی اشیاءاوراس کے کسی بھی قسم کے پروڈکشن پر سعودی کے اندر کوئی کسٹم ٹیکس نہیں لگے گا۔ چنانچہ آج بھی سعودی عرب میں فلسطینی اپنے مصنوعات کو فری ٹیکس در آمد کرتے اور بیچتے ہیں۔ 
فلسطینی پناہ گزینوں کا تعاون: 
-حکومت سعودی عرب نے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ تعاون پیش کرنے میں خصوصی اہتمام کیا ہے؛ چنانچہ مملکہ نے ان تک بلاواسطہ بھی مدد پہونچاتا رہا ہے اور علاقائی وعالمی تنظیموں کے واسطے سے بھی ان کی مدد کرتا رہا ہے۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کا خصوصی دھیان دینے والی تنظیم انروا (UNRWA) ہو ، یونسکو اور عالمی بنک(WB)ہو یا اسلامی بنک اور عربی فنڈ برائے اقتصادی اور سماجی ترقی ہو۔ انروا تنظیم جو اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرتی ہے مملکہ برابر اپنا تعاون اس کے پاس بھیجتا رہا ہے۔ چنانچہ صرف اسی ایک تنظیم میں مملکہ کا سالانہ تعاون بارہ لاکھ امریکی ڈالر رہا ہے۔ اور جب کبھی بھی اس عالمی تنظیم کے سالانہ بجٹ میں کسی طرح کی کمی پیش آئی ہے تو ہمیشہ اس کمی کو سعودی عرب نے پورا کیا ہے۔ 
اقصی اور انتفاضہ فنڈکا قیام: 
-2000ءمیں جب فلسطین کے اندر دوسرا انتفاضہ شروع ہوا تو مملکہ نے سب سے آگے بڑھ کر فلسطین کا فیاضانہ تعاون کیا ۔ چنانچہ جہاں ایک طرف 240/ملین ریال کا مالی تعاون پیش کیا تو دوسری طرف ایمبولینس گاڑی اور عام گاڑی ، زیورات، طبی اور غذائی مواد کی شکل میں عینی تعاون بھی پیش کیا۔ 
- اس دوسرے انتفاضہ کے موقعہ سے2000ءمیں قاہرہ کے اندرمنعقد عرب لیگ کی کانفرنس میںمملکت سعودی عرب ہی نے فلسطین کا تعاون بڑھانے کیلئے اقصی فنڈ اور انتفاضہ فنڈ کے قیام کی تجویز رکھی تھی جسے سب نے قبول کیا ۔ چنانچہ اقصی فنڈ کے حساب میں مملکت سعودی عرب نے سب سے زیادہ تعاون پیش کیا۔ اس فنڈ کے اندر کل ۴۴/ملین ڈالر کا تعاون پیش کیا ۔ جسکا مقصد بیت المقدس میں مسجد اقصی اور دیگرمشاعر مقدسہ نیز عربی اور اسلامی ورثے کی حفاظت اور انکی دیکھ بھال پر خرچ کرنا تھا۔اور ملک فہد بن عبد العزیزؒ کی جانب سے خصوصی طور پر انتفاضہ فنڈ کے اندر 50/ملین ڈالر کا اضافہ کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ انتفاضہ کے شہداءاور انکے اہل خانہ کی دیکھ ریکھ نیز بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جاسکے۔ 
-اسی سال اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک (IDB)نے یہ صراحت کی کہ اقصی فنڈ اور انتفاضہ فنڈ جن کا راس المال کل ایک ارب ڈالر ہے اس میں سعودی کا تعاون ڈھائی سو ملین یعنی سب کا چوتھائی ہے۔ جبکہ ایک مرتبہ انتفاضہ کی فوری طور پر مدد کیلئے اسلامک بینک نے خصوصی ۸/ملین بجٹ کا اعلان کیا تو ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے ۵/ملین ڈالر تنہا ادا کردیا جو کہ مجموعی بجٹ کا 60/فیصد بنتا ہے۔ 
-فلسطین کے اندر موجود آثار قدیمہ اور اسلامی شعائر ومقدسات کی حفاظت اور ان میں ترمیم واصلاحات کے تعلق سے جب بھی یونسکو یا کسی عالمی وعلاقائی تنظیم نے تعاون کا اعلان کیا تو مملکہ نے سب سے آگے بڑھ کر اس پر لبیک کہا۔ چنانچہ قبةالصخرة، مسجد اقصی، مسجد عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نیز بیت المقدس کے ائمہ وموذنین کے رہائش گاہوں کی ترمیم واصلاح کیلئے خصوصی طور پر صرف مملکت سعودی عرب نے پورا خرچہ برداشت کیا ہے۔ 
- ملک فہد بن عبد العزیزؒ کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے تعلیم ، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خرچ کرنے کیلئے فلسطین کی خصوصی مدد پیش کی جسکی مقدار ساڑھے بہتر (72.5)ملین ڈالر تھی۔
 - ملک فہد بن عبد العزیزؒ ہی کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے فلسطین کو10/ملین ڈالر تعاون پیش کیاان تمام فلسطینی محافظ دستوں کی فلسطین منتقلی کیلئے جو دیگر عرب ممالک میں موجود تھے۔ 
فلسطینی اتھارٹی کے سالانہ بجٹ کا تعاون(دعم میزانیة السلطة الفلسطینیة):
-مارچ ۲۰۰۲ءمیں بیروت چوٹی کانفرنس، مارچ 2003ءمیں شرم الشیخ چوٹی کانفرنس اور مئی 2004ءمیں ٹیونس چوٹی کانفرنس کے اندر عرب لیگ نے فلسطینی اتھارٹی کی مالی تعاون کا اعلان برابر کیا ہے جس کے مطابق سعودی عرب نے سب سے بڑھ کر تعاون کیا ہے۔ چنانچہ صرف 1/4/2002-30/3/2004 کے دوران مملکہ نے (184,8) ملین ڈالر کا تعاون کیا ہے۔ اور پھر یکم اپریل 2004ءسے آگے صرف چھ مہینے کیلئے مملکہ کا تعاون (46,2)ملین ڈالر تھا۔ اور آج تک مملکت سعودی عرب فلسطینی اتھارٹی کا سالانہ تعاون کرتے چلے آرہا ہے۔  اس طرح فلسطینی اتھارٹی کے تعاون کے سلسلے میں مملکہ دیگر عرب ممالک میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ 
-غزہ پٹی کے جنوب میں رفح کے اندر ظالم اسرائیل نے فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کردیا تھا چنانچہ انکی آبادکاری اور انکے لئے گھر بسانے کے پلان سے 2003ء-2004ءکے بیچ میں مملکت سعودی عرب نے 752/رہائشی گھر بنوایا۔ اسکے علاوہ کئی مساجد اور مدارس کی تعمیر کی بھی ذمیداری لی۔ یہ پورا کام عالمی تنظیم (اونروا) کی نگرانی میں ہوئی جسکا پورا خرچہ 15/ملین امریکی ڈالر پڑا تھا۔ اسکے علاوہ دوسرے مرحلے میں آٹھ سو رہائشی گھروں کیلئے 34/ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔ 
غزہ پٹی کے اندر خلیجی تعاون کونسل نے جدید1100/ رہائشی گھروں نیز چھ مدارس کی تعمیر کیلئے جو تعاون پیش کیا اس میں سعودی نے کل 54/ملین امریکی ڈالر کا تعاون اکیلے دیا۔ شعبہ تعمیرات کے علاوہ سعودی عرب نے غذائی اور طبی امداد بھی فلسطینی پناہ گزینوں کو پیش کیا ۔
اونروا کے جنرل مندوب فلیپو گرانڈی نے اس موقعہ پر واضح بیان دیا کہ لبنان کے اندر مخیم نہر البارد میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی آباد کاری کے بعد پناہ گزینوں کے تعاون میں یہ سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ ہے۔ 
- جولائی /2006ءمیں ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے فلسطینی عوام کے ساتھ تعاون کے جذبے کے تحت ڈھائی سو(250) ملین امریکی ڈالر کا عطیہ پیش کیا تاکہ اسے فلسطینی اتھارٹی تعمیرات کے مد میں استعمال کرے۔ 
-2009ءکے اندر کویت میں منعقد عربوں کی چوٹی کانفرنس(غزہ کے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کی کانفرنس ) میں ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے ایک ارب امریکی ڈالر کے تعاون کا اعلان کیا تاکہ اسے غزہ کی آبادکاری میں استعمال کیا جاسکے۔ 
- غزہ پر اسرائیلی حملے سے متاثرین فلسطینیوں کیلئے ملک عبد اللہؒ نے مصر کے راستے غزہ پٹی تک ہر طرح کی ضروری ادویات اور سازوسامان کو پہونچانے کا انتظام کیا۔ زخمی فلسطینیوں کے خصوصی علاج ومعالجہ کیلئے مصر سے مملکہ تک آنے کیلئے خصوصی ہوائی جہازوں کا بندو بست کیا ۔اور مملکہ کے مختلف اسپتالوں میں انہیں بھرتی کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ جسے جس طرح کے علاج کی ضرورت ہو اسی طرح کے خصوصی اسپتال میں وہ پہونچ جائے۔آپ نے اسپتالوں کا دورہ کرکے زخمیوں کے حالات کا جائزہ لیا ، خصوصی دھیان دینے کی تاکید کی ، ان کی تیمار داری کی اور ساتھ ہی ان زخمیوں کیلئے اور ان کے مرافقین کیلئے یومیہ خرچے کا بھی بندوبست کیا۔ 
-اسرائیلی ظلم کے نتیجے میں پریشان حال فلسطینیوں کیلئے ملک عبد اللہ ؒ نے ہنگامی طور پر پورے مملکہ میں ہر علاقے کے اندر فلسطینی بھائیوں کی مدد کیلئے خصوصی تعاون کا اعلان کروایا۔ 
- دسمبر 2009ءمیں اقوام متحدہ کے ماتحت پناہ گزینوں کے لئے کام کرنے والی تنظیم (وکالة الامم المتحدة لاغاثة وتشغیل اللاجئین الفلسطینین فی الشرق الادنیUnited Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near East) انروا نے امیر نایف بن عبد العزیزؒ کو خصوصی امتیازی انعام(جائزة المانح المتمیز للاونروا) سے نوازا ۔ یہ آپ کی پہلی عالمی شخصیت ہے جس نے یہ انعام حاصل کیا۔ یہ درا صل مملکہ کی اس انسانی کوشش کے نتیجے میں ملا جو مملکہ کی طرف سے اہل فلسطین کے حق میں انفرادی اور عالمی تنظیموں کے اشتراک سے مختلف کمیٹیوں ، پروجیکٹوں اور پلانوں کے ذریعے تعاون پیش کیا گیا۔ 
-25/جون 2011ءکو اسلامی بینک برائے ترقی کے نگراں دکتور محمد اشتیہ نے اعلان کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو سعودیہ عرب ممالک میں سب سے زیادہ تعاون دینے والا ملک ہے۔ سعودی نے صرف فلسطینی اتھارٹی کو 1949ءتک 1600/ملین امریکی ڈالر تعاون پیش کرچکا ہے۔ 
-21-۲۲/جنوری 2013ءمیں ریاض کے اندر منعقد چوٹی عرب کانفرنس میں مملکت سعودی عرب نے فلسطین کیلئے ایمرجنسی طور پر مالی مدد کا خصوصی اعلان کیا۔ کیونکہ اس وقت فلسطینی اتھارٹی مالی بحران سے گزر رہا تھا اور اس کانفرنس کے اندر فلسطینی وفد نے بھی اسی مقصد سے شرکت کی تھی جس میں مملکہ نے 100/ ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔جس میں سعودی وزیر خارجہ امیر سعود الفیصل کی طرف سے 20/ملین ڈالر کا مزید اضافہ کیا گیا۔ 
- جنوری /2014ءمیں مشرقی خان یونس اور جنوب غزہ پٹی کے اندر ۲۲/مدارس کے بچوں کے درمیان سردی کے مختلف قسم کے کپڑوں کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ جسکا انتظام خصوصی طور سعودی خاتون سارہ موسی نے کیا۔ اس امداد سے تقریباً پانچ سو طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔ 
- 2015ءمیں جہاں کویت کی طرف سے 32/ملین ڈالر ، امارات کی طرف سے 17/ملین ڈالراور اماراتی ہلال احمر کی طرف ۸/ ملین ڈالر کا تعاون پیش کیا گیا وہیں پر صرف سعودی نے 96/ ملین ڈالر کا تعاون اکیلے پیش کیا۔ 
- مارچ/2016ءمیں سعودی فنڈ برائے ترقی(الصندوق السعودی للتنمیة) نے فلسطینی اتھارٹی کے اکاونٹ میں (30.8) ملین ڈالر جمع کیا جو کہ در اصل سعودی عرب کا فلسطینی اتھارٹی کا ماہانہ تعاون ہے ۔ مذکورہ رقم دسمبر 2016ءسے مارچ 2017ءتک کا ماہانہ تعاون ہے۔ اسکا ماہانہ حساب (7.7) ملین امریکی ڈالر بنتا ہے۔ 
- 2016ءہی میں عالمی تنظیم اونروا نے اعلان کیا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا تعاون کرنے میں سعودی سب سے زیادہ پیش پیش رہا ہے؛ چنانچہ اس سال سعودی نے فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے جو عینی اور مالی امداد پیش کی ہے وہ 368/ ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد یورپی اتحاد (جس میں یورپ کے کل بائیس ممالک شامل ہیں) کا نمبر آتا ہے جس نے 160/ ملین امریکی ڈالر کی امداد پیش کی ہے۔ 
 اس طرح سعودی عرب فلسطین کیلئے مختلف شعبوں میں اپنا تعاون پیش کرتا رہا ہے ۔ حادثاتی اور ناگہانی حالات، موسمی حالات، فلسطینی اتھارٹی کا سالانہ بجٹ، پناہ گزینوں کی آبادکاری ، جنگی حالات، ایمرجنسی مالی بحران، مدارس ومساجد کی تعمیر، بنیادی ڈھانچہ ، غذائی اور طبی امداداور فلسطینیوں کو نیشنلٹی دینا وغیرہ ۔
 20/جون 2016ءکو ملک سلمان بن عبد العزیز ؒ نے فلسطینی صدر محمود عباس سے جدہ میں ملاقات کے وقت کہا ہے کہ ہماری مدد اہل فلسطین کیلئے ثابت اور مستمر ہے۔ ابھی حالیہ ماہ دسمبر میں وزیر ثقافت عواد العواد نے بیان دیا کہ فلسطین کے ساتھ تجارت کرنے والے ایران جیسے ملکوں کے افواہوں اور پروپیگنڈوں سے دور رہ کر مملکت سعودی عرب کے سیاسی، مالی اور اخلاقی ہر طرح کے تعاون کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ مسجد اقصی اور القدس کے تعلق سے کسی طرح کی زیادتی مملکت سعودی عرب کبھی نہ برداشت کیا ہے اور نہ آئندہ کبھی برداشت کرے گا۔ 
 ہماری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت مسجد اقصی اور بیت المقدس کو ہم سب کے دلوں میں بسا دے، ہم سے جتنا اور جس بھی شکل میں ہوسکے اہل فلسطین کے تعاون میں ہاتھ بٹانے اور کم از کم ان کے حق میں دعا کرنے کی توفیق بخشے، سرزمین فلسطین کے نام پر تجارت کرنے اور وہاں کے باشندوں کا استحصال کرنے سے نیز ہر طرح کے ریا ونمود سے بچائے۔ آمین 
mdabufaris6747@gmail.com
اس لنک پر بھی جا کر مطالعہ کر سکتے ہیں: 
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=11079&date=2017-12-23

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1503757359737546&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

سید مودودی کا فاسد عقیدہ تفہیم القرآن کی روشنی میں

  محدث محدث لائبریری محدث فتویٰ محدث میگزین محدث میڈیا قرآن لائبریری رسائل و جرائد شاملہ اردو لاگ ان   جماعت اسلامی آئیے! مجلس التحقیق الاسل...