الخميس، 14 نوفمبر 2019

ہمفرے اور لارنس آف عربیہ

*ہمفرے اور لارنس آف عربیہ*

دانشگردان کی باسی کڑی میں پھر سے ابال آیا ھے۔۔۔۔ فرماتے ہیں کہ (آل سعود اور وھابیت) کی اندھی تقلید میں لوگ ہمفرے اور لارنس عربیہ کے "انکشافات" تک بھول بیٹھے ہیں۔۔۔

بغیر کسی تمہید کے مدعے پر آتے ہیں۔ دشمنان توحید کی اس بکواس کا مجھ سمیت لاکھوں لوگ جواب دے چکے مگر ان قبر پرستوں کی جہالت و ہٹ دھرمی کا یہ عالم ھے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یہ انکا موحدین سے بغض نہیں تو کیا ھے کہ نہ تو ہمفرے کے "انکشافات" پر لکھی گئی کتاب پڑھیں اور نہ ہی لارنس آف عربیہ کی۔۔۔ اور نہ ہی ان میں درج معلومات کی تحقیق کی۔۔۔ مگر ایمان ایسے لے آئے کہ جیسے یہ آیاتِ قرآنی ہوں۔۔۔۔ خیر تحقیق سے انہیں کیا لینا دینا؟ انکا مقصد تو صرف اور صرف رب کی توحید کو نیچا دکھانا ھے۔

سب سے پہلے ہم ہمفرے کے نام نہاد"انکشافات" پر آتے ہیں۔ محققین و اصحاب علم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ "ہمفرے کے انکشافات" نری بکواس اور جھوٹ کا پلندہ ہیں----! سطحی ترین عقل رکھنے والا شخص بھی اگر یہ کتاب پڑھ لے تو اسے ایک تھرڈ کلاس ناول سے زیادہ اہمیت نہ دے، مگر کیا کیجئے! بغضِ توحید کے مارے اس کتاب کے لفظ لفظ کو وحی مانتے ہیں----! سچ یہ ھے کہ ہمفرے صرف ایک فرضی کردار ھے اور اسے گھڑنے والا ایک قوم پرست اور صوفی ترک مصنف ایوب صابری پاشا ھے---!

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کتاب میں آل سعود کا کوئی ذکر نہیں ھے۔ اس کتاب میں صرف شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ھے، وہ بھی بھونڈے ترین انداز میں۔۔۔ 

اس پوری کتاب کے رد کیلئے یہی کافی ھے کہ ہمفرے اپنی کتاب میں دعوی کرتا ھے کہ وہ 1713ء میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب سے بصرہ میں ملا---! بقول اس کے اس وقت شیخ ایک طالب علم تھے اور عربی کے علاوہ فارسی اور ترک زبان پر بھی عبور رکھتے تھے---! اس کتاب میں ہمفرے یہ بھی کہتا ھے کہ میرے بہکانے سے شیخ شراب بھی پینے لگے تھے اور میرے ہی بہکانے پر ان نے دو عورتوں کے ساتھ متعہ بھی کیا----! اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ھے مگر حقیقت جاننے والوں کے لئے یہی کافی ھے-!

اگر یہ دشمنان توحید عقل سے پیدل نہ ہوتے تو اس بکواس کی تحقیق کر کے حقیقت جان جاتے لیکن قبر پرست ہونے کے لئے جاھلیت شرط اول ھے---! اب آئیں اور سچ دیکھیں:

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ علیہ سن 1703-4ء عیسوع میں پیدا ہوئے اور جو سن ہمفرے ان سے ملاقات کی لکھتا ھے اس میں تو انکی عمر 9 یا 10 سال بنتی ھے----! اب بتایا جائے کہ ایک نو یا دس سال کا بچہ وہ سب کیسے کر سکتا ھےکہ جو ہمفرے کہہ رھا؟؟؟؟ جبکہ ہمفرے کی کتاب سے ظاہر ہوتا ھے کہ 1713ء میں شیخ جوان مرد تھے، جو کہ سفید جھوٹ ھے--------! اب جب اس کتاب کی بنیاد ہی جھوٹ ھے تو باقی کتاب کا کیا کرنا، باقی تو کچھ بچتا ہی نہیں----!

اب آتے ہیں لارنس آف عربیہ کی کتاب کی طرف۔۔۔۔ جیسا کہ میں نے شروعات میں ہی کہا تھا کہ نہ تو ان بزعم خود دانشوران نے کبھی یہ کتب پڑھیں ہیں اور نہ ہی انہیں اسکی تحقیق کی توفیق ہوئی۔

کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کی پوری کتاب میں نہ تو آل سعود کا ذکر ھے اور نہ ہی شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ علیہ کا۔ جبکہ شیخ الاسلام لارنس آف عربیہ کی پیدائش سے 96 سال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ 

لارنس آف عربیہ کی کتاب میں اگر ذکر ملتا ھے تو شریفِ مکہ یعنی حجاز کے گورنر حسین بن علی الہاشمی کا کہ جس نے لارنس آف عربیہ کے ساتھ مل کر حکومت برطانیہ کی شہہ پر خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کی۔ اور یہ شریف مکہ صوفی المذہب تھا۔ اس ہی زندیق کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:

ہاشمی بیچتا ہے ناموسِ دین مصطفی،
مل رہا ہو خاک و خون میں ترکمان سخت کوش۔

اسلام سے اس غداری کے صلے میں نہ صرف شریف مکہ کو حجاز کا بادشاہ بنایا گیا بلکہ اسکے بیٹے فیصل کو شام اور عبداللہ کو اردن کا بادشاہ بھی بنا دیا گیا۔ اردن کا موجودہ بادشاہ عبداللّٰہ دؤم اس ہی عبداللہ کا پوتا ھے۔

جںکہ شریف مکہ کے دوسرے بیٹے فیصل کی بادشاہت شام میں دو برس بعد فرانسیسی قبضے نے ختم کر دی۔ جبکہ تاج برطانیہ نے اپنے اس چہیتے کو وہاں سے نکال کر عراق کا بادشاہ بنا دیا۔۔۔ فیصل پر اس خاص انعام و اکرام کی وجہ یہ ھے کہ عثمانیوں کے خلاف بغاوت کا اصل کردار یہی فیصل تھا۔۔۔۔۔۔ اس مردود کے لئے ہی علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا،
تو نام و نسب کا حجازی تھا پر دل کا حجازی بن نہ سکا۔

××××××××××××××××××××××

اس تمام عرصے میں آل سعود تو اپنے وطن نجد سے دور کویت میں جلا وطنی کاٹ رھے تھے۔ یہ واضح رھے کہ نجد اور حجاز دو الگ الگ علاقے ہیں اور انکے حاکم بھی الگ تھے۔ نجد کے حاکم آل سعود کے دیرینہ دشمن آل رشید تھے۔ نجد ان ہی سے آل سعود نے 1921ء میں چھینا۔ جبکہ آل رشید نے نجد کا علاقہ آل سعود سے 1890ء میں عثمانیوں کی مدد سے چھینا تھا۔

1921ء میں جب عثمانی ہر طرف سے شکست کا سامنہ کر رھے تھے اور نجد کے آل رشید نے بھی 1920ء میں عثمانیوں سے بغاوت کر کے آزادی کا اعلان کر ڈالا تو تب جا کر آل سعود نے نجد پر چڑھائی کی۔

اسکے بعد آل سعود نے 1924ء میں حجاز پر قبضہ کیا۔ جبکہ شریفہ مکہ 8 سال قبل ہی عثمانیوں سے بغاوت کر چکا تھا۔ اور حجاز میں کوئی ایک عثمانی یا ترک فوجی باقی نہ رہا تھا۔ اور جس وقت آل سعود حجاز میں داخل ہوئے اس وقت خلافت عثمانیہ کے ٹوٹے ہوئے پورا ایک سال بیت چکا تھا۔۔۔۔۔

مصطفی کمال نے 1923ء میں خلافت کا باب بند کر ڈالا تھا۔ کہ جس پہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:

چاک کردی ترک نادان نے خلافت کی قبا،
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ-!

×××××××××××××××××××××××××××××××××

آخر میں میری تمام قبر پرستوں اور دشمنان توحید سے درخواست ھے کہ جو کچھ آپ پڑھیں یا سنیں، اسے سچ نہ مان لیا کریں، تحقیق کیا کریں۔ موحدین کی دشمنی اور توحید ربی سے نفرت میں اندھے مت ہو جائیں----

نہیں تو پھر کل کلاں اگر کوئی آپ کی ماں یا بہن پر بہتان باندھے تو اسے بھی بنا چوں چراں کے سچ مان لیجئے گا، شکریہ------! #اچھا_سوری

#سواتیات
اویس خان سواتی

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

یاسر برہامی سلفی یا اخوانی؟!

 یاسر برہامی سلفی یا اخوانی؟!  مصر کے اندر سلفیت کا پلیٹ فارم اور چہرہ جمعية أنصار السنة المحمدية ہے..  اور اسکی معروف شخصیات ہیں... جیسے کہ...